صدر عہدہ سے استعفیٰ دینے کے بعد اشرف غنی آخر کہاں ہو گئے لاپتہ؟
تاشقند میں افغان سفارت خانے نے پیر کو کہا کہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے کہ صدر اشرف غنی ملک سے استعفیٰ دینے کے بعد ازبکستان پہنچے ہیں یا نہیں۔
افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے اور افغانی صدر اشرف غنی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔ لیکن استعفیٰ کے بعد اشرف غنی کا کچھ پتہ نہیں ہے اور کچھ ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ وہ دوسرے ملک روانہ ہو گئے ہیں۔ حالانکہ اس تعلق سے کوئی تصدیق نہیں ہو پا رہی ہے۔ اس درمیان قازقستان حکومت نے کہا ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی قزاخستان میں نہیں ہیں قازق وزارت خارجہ کے ترجمان ایبک اسمادیا روف نے یہ اطلاع پیر کو اسپوتنک کو دی، انہوں نے ایجنسی کو فون پر بتایا کہ اشرف غنی جو افغان دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد تشدد کو روکنے کے لیے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد ملک چھوڑ گئے، قازقستان میں نہیں ہیں۔
اس سے قبل تاجکستان کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ اشرف غنی کا طیارہ تاجکستان میں نہیں اترا اور نہ ہی ان کی فضائی حدود میں داخل ہوا۔ اس سے تاشقند میں افغان سفارت خانے نے پیر کو کہا کہ اس کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے کہ آیا صدر اشرف غنی ملک سے استعفیٰ دینے کے بعد ازبکستان پہنچے ہیں یا نہیں۔
اس درمیان تاشقند میں افغان سفارت خانے نے پیر کو کہا کہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے کہ آیا صدر اشرف غنی ملک سے استعفیٰ دینے کے بعد ازبکستان پہنچے ہیں یا نہیں۔ امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے اتوار کو دوحہ میں ہونے والے بین الافغان مذاکرات کے لئے افغان حکومت کے وفد کے ایک رکن کے حوالے سے رپورٹ دی کہ شرف غنی اپنی اہلیہ اور دو مشیروں کے ساتھ تاشقند کے لئے کابل سے روانہ ہوئے ہیں۔ اشرف غنی کے محافظ نے بعد میں ’الجزیرہ‘ کو بھی تاشقند پہنچنے کی تصدیق کی۔ ازبکستان میں افغان سفارت خانے کے ترجمان نے اسپوتنک کو بتایا کہ ’’ہم ان رپورٹوں کی تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے‘‘۔
دوسری طرف افغانستان کے اول نائب صدر امر اللہ صالح نے پیر کو کہا کہ وہ کبھی بھی طالبان کے سامنے نہیں جھکیں گے اور دارالحکومت کابل پر قبضے کے باوجود ملک میں ہی رہیں گے۔ صالح نے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا ’’میں اپنی زمین پر ہوں، لوگوں کے ساتھ، ایک وجہ اور مقصد کے لئے۔ نیکی پر پختہ یقین کے ساتھ، پاکستان کی حمایت یافتہ جبر اور سفاک آمریت کی مخالفت کرنا ہمارا قانونی حق ہے۔
طالبان اتوار کو کابل میں داخل ہوئے جس کے بعد صدر اشرف غنی نے اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے ملک چھوڑ دیا۔ اشرف غنی نے کہا کہ انہوں نے تشدد روکنے کا فیصلہ اس لیے لیا کیونکہ دہشت گرد دارالحکومت پر حملہ کرنے کے لئے تیار تھے۔ طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے کہا کہ اس گروپ نے ملک میں 20 سال سے جاری لڑائی ختم کر دی ہے۔
(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔