کب بند ہوگی یہ تباہی!... سید خرم رضا

جنگی محاذ پر روس چاہے کامیاب نظر آ رہا ہو، لیکن مغربی ممالک نے میڈیا کے محاذ پر لڑائی لڑتے ہوئے روس کی شبیہ ایک حملہ آور ملک کی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

تصویر Getty Images
تصویر Getty Images
user

سید خرم رضا

یوکرین میں روسی حملوں کو شروع ہوئے اب دس دن گزر گئے ہیں اور ایسا کوئی بھی اشارہ نہیں مل رہا ہے کہ یہ حملے جلد بند ہو جائیں گے یا خطہ میں امن قائم ہو جائے گا۔ روسی حملوں اور یوکرین کی جوابی کارروائی کو جنگ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ جنگ انتہائی خوفناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور جان و مال کا زبردست نقصان ہو رہا ہے۔ فضائی حملوں میں جہاں بلڈنگیں زمین بوس ہو رہی ہیں، لوگ اپنے قریبیوں کو مرتے دیکھ رہے ہیں، وہیں دوسرے ممالک میں لوگ اپنے قریبیوں کی واپسی کا بے چینی سے انتطار کر رہے ہیں۔

جنگ میں زبردست تباہی ہو رہی ہے لیکن جنگ کئی محاذ پر لڑی جا رہی ہے، ایک محاذ وہ ہے جہاں روسی حملے ہو رہے ہیں اور یوکرین کے لوگ اپنے صدر کی قیادت میں ان حملوں کا جواب دیتے اور اپنی جانیں بچاتے نظر آ رہے ہیں، اس محاذ پر فوج اور عوام آمنے سامنے ہیں۔ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا وہ دوسرا محاذ ہے جہاں پر اس جنگ سے متعلق خبروں کی لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ کسی کے پاس ان ذرائع سے پھیلائی جانے والی خبروں کی کوئی تصدیق کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ اگر یہ خبر آتی ہے کہ پوتن نے اپنے اہل خانہ کو سائبیریا میں ایک محفوظ مقام پر بھیج دیا ہے، جہاں پر نیوکلیائی حملوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا تو اس کی تصدیق کہیں سے نہیں کرائی جا سکتی۔ اس خبر کے پیچھے یوکرین کے حامیوں کے ذریعہ یہ تصویر پیش کرنا ہے کہ روسی صدر خوفزدہ ہیں اور انہوں نے اپنے اہل خانہ کو محفوظ مقام پر بھیج دیا ہے، جس سے روس میں صدر پوتن کی شبیہ خراب ہوگی۔ اگر خبر یہ آتی ہے کہ اتنے روسی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں یا یوکرینی صدر زیلنسکی پر جان لیوا حملے ہوئے ہیں یا ہونے کا خدشہ ہے تو اس کی بھی تصدیق نہیں کی جا سکتی، لیکن جنگی اعتبار سے یہ بہت اہم ہے، یعنی جنگ میں اس محاذ کی بھی بہت اہمیت ہے۔


ویسے تو یہ ہمیشہ رہا ہے لیکن آج کی جنگ میں اقتصادیات کی بہت اہمیت ہے اور جنگ کی کامیابی اور ناکامی کا بہت حد تک اس محاذ پر کامیابی اور ناکامی پر انحصار ہوتا ہے۔ اس جنگ میں دنیا کے ممالک کی ایک بڑی تعداد یوکرین کے حق میں ہے اور روس کو اس جنگ کے لئے مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔ اس وجہ سے یوکرین کے حامیوں یعنی مغربی ممالک میں روس کی شبیہ خراب کرنے کے ساتھ ساتھ روس پر اقتصادی پابندیوں کو لاگو کرنے کا جواز مل گیا ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک نے روس پر تمام طرح کی اقتصادی پابندیاں لاگو کر دی ہیں، جن کا مقصد روس کو اقتصادی طور پر کمزور کر نا ہے۔

ان اقتصادی پابندیوں کا مقصد بظاہر روس پر جنگ بندی کے لئے دباؤ بنانا ہے لیکن اس کا ایک چھپا ہوا مقصد روسی صدر پوتن کے خلاف روس میں ماحول بنانا بھی ہے اور ابھی سے اس کا اثر نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ خبروں کے مطابق روس نے فیس بک پر پابندی عائد کر کرنے کے ساتھ ملک میں حکومت مخالف خبروں پر پابندی لگا دی ہے۔ روس کا جہاں یہ مقصد ہے کہ اس کے خطے میں یا یوں کہئے کہ جو ممالک سابقہ یو ایس ایس آر کا حصہ تھے وہاں پر یوروپ کی طاقت میں اضافہ نہ ہو، وہیں یوروپی ممالک اور امریکہ کا مقصد روس اور اس کے صدر پوتن کو کمزور کرنا ہے۔ روس نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے جنگ کا راستہ اختیار کیا وہیں مغربی ممالک نے اقتصادی پابندیوں کو اپنا ہتھیار منتخب کیا۔


یوکرین کے حامیوں کو امید ہے کہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روس کے سرمایہ دار یعنی ’روسی اولیگارک‘ پریشان ہو جائیں گے اور وہ صدر پوتن پر دباؤ بنائیں گے، ساتھ میں روس مخالف اتحاد کو یہ امید ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ روس میں جو مہنگائی ہوگی اس سے عوام میں پوتن کے خلاف ناراضگی بڑھے گی۔ جیل میں قید روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی نوالنی کو پوتن کا یوکرین پر حملے نے احتجاج کا ایک اور موقع دے دیا ہے اور اب وہ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ لوگ جنگ کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کریں۔

اگر روس نے جلد ہی حملے بند نہیں کئے تو وہ دن دور نہیں جب روس کے اندر لوگ اپنے صدر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر دیں گے۔ جنگی محاذ پر روس چاہے کامیاب نظر آ رہا ہو، لیکن مغربی ممالک نے میڈیا کے محاذ پر لڑائی لڑتے ہوئے روس کی شبیہ ایک حملہ آور ملک کی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور اس کو الگ تھلگ کرنے میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ تیسرا محاذ یعنی اقتصادی محاذ پر بھی پابندیاں عائد کر کے روس اور اس کے صدر کے لئے پریشانیاں پیدا کر دی ہیں۔ جنگ میں کبھی کوئی نہیں جیتتا اور اس میں صرف تباہی ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تباہی کب بند ہو گی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔