اعظم گڑھ کی نظام آباد اسمبلی سیٹ: ’تمام امیدوار ایسے ہیں کہ ووٹروں کو سمجھ نہیں آ رہا کسے ووٹ نا کریں!‘

نظام آباد کے آسنی گاؤں کے صادق احمد کے بقول ’’اس اسمبلی سیٹ پر نظام کسی کے بھی ہاتھ میں رہے لیکن تمام امیدوار بہترین ہیں۔ یہاں مقابلہ مثالی قائدین کے درمیان ہے۔‘‘

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

اتر پردیش میں اعظم گڑھ کی نظام آباد اسمبلی سیٹ اپنے آپ میں ایک منفرد سیٹ ہے۔ یہاں کوئی وی آئی پی مقابلہ نہیں کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسمبلی سیٹ پوری ریاست میں سب سے زیادہ توجہ مبذول کر رہی ہے۔ نظام آباد کے آسنی گاؤں کے صادق احمد کے بقول ’’اس اسمبلی سیٹ پر نظام کسی کے بھی ہاتھ میں رہے لیکن تمام امیدوار بہترین ہیں۔ یہاں مقابلہ مثالی قائدین کے درمیان ہے۔‘‘

اعظم گڑھ کی نظام آباد اسمبلی سیٹ: ’تمام امیدوار ایسے ہیں کہ ووٹروں کو سمجھ نہیں آ رہا کسے ووٹ نا کریں!‘

یہ تمام امیدوار ایماندار ہیں، جدوجہد کرنے والے ہیں اور گزشتہ سالوں کے دوران حقیقی معنوں میں عوام کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ یہاں کے ووٹروں کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ انہیں فیصلہ کرنا ہے وہ آخر کسے ووٹ نا دیں! صادق احمد کا کہنا ہے کہ یہاں سے پچھلی بار سماج وادی پارٹی نے جیت حاصل کی تھی اور اس بار بھی وہ آگے چل رہی ہے، لیکن دوسرے امیدوار بھی ایسے ہیں جو پانچ سال سے بی جے پی کی عوام دشمن پالیسیوں سے لڑ رہے ہیں اور مقامی لوگوں کو ان سے ہمدردی ہے۔ اعظم گڑھ کی نظام آباد اسمبلی سیٹ پر یوپی انتخابات کے آخری مرحلے میں 7 مارچ کو ووٹنگ ہونے جا رہی ہے۔ یہاں سے کانگریس کے محنتی کارکن انیل یادو ہیں، اقلیتی طبقہ کے لئے سڑکوں پر جدوجہد کرنے والی تنظیم ’رہائی منچ‘ کے راجیو یادو، اتر پردیش کی سیاست میں بے داغ شبیہ رکھنے والے چار بار کے ایم ایل اے 87 سالہ عالم بدی میدان میں ہیں۔

اعظم گڑھ کی نظام آباد اسمبلی سیٹ: ’تمام امیدوار ایسے ہیں کہ ووٹروں کو سمجھ نہیں آ رہا کسے ووٹ نا کریں!‘

بی جے پی نے یہاں سے منوج یادو اور بی ایس پی نے پیوش کمار سنگھ کو میدان میں اتارا ہے اور یہ سبھی مقامی قائدین ہیں۔ سیاسی ماہر اور اعظم گڑھ کے رہنے والے عبدالوحید صدیقی کا کہنا ہے کہ اس سیٹ پر نتیجہ پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی، کیونکہ اتر پردیش کے انتخابات میں دو طرفہ مقابلہ ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس سیٹ پر بہترین امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے عوامی مفادات کی جنگ لڑی ہے اور ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا مشکل ہے۔ عبدالوحید بتاتے ہیں کہ لکھنؤ کی سڑکوں پر بھی راجیو یادو نے لاٹھیاں کھائی ہیں، اقلیتوں اور دلت برادری کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے وہ جیل بھی جا چکے ہیں، انہوں نے آج الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے تو ان کی منشا پر شک نہیں کیا جا سکتا اور ان کے جیسے جدوجہد کرنے والے نوجوان کو ایوان میں ہونا چاہئے۔ راجیو یادو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

کانگریس کی طرف سے پارٹی کے ریاستی سکریٹری انیل یادو میدان میں ہیں۔ انیل یادو خود ایک جدوجہد کارکن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ خود بھی مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں، عوامی مفادات کے حق میں وہ انشن پر بیٹھے ہیں اور جیل بھی جا چکے ہیں۔ انہیں ہر بحران میں اگلی صف میں کھڑا دیکھا گیا ہے۔ عبدالوحید کہتے ہیں بلاشبہ یہ بھی درست ہے کہ وہ مقامی دلتوں میں بھی مقبول ہیں اور پالیا گاؤں میں ان کی جدوجہد نے انہیں طاقت بخشی ہے۔نظام آباد سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار بھی باکمال ہیں۔ 85 سالہ عالم بدی کو اتر پردیش کا سب سے ایماندار رکن اسمبلی قرار دیا جاتا ہے اور وہ یہاں سے چار بار الیکشن جیت چکے ہیں۔ سائیکل چلانے والے عالم بدی کی خوبی یہ ہے کہ آج بھی انتہائی سادہ گھر میں رہتے ہیں اور سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ عالم بدی ٹین شیڈ ڈال کر رہے ہیں اور گھر کے باہر محض ایک جیپ رہتی ہے۔ ان کا ایک بیٹا نظام آباد میں فرنیچر کی دکان چلاتا ہے۔

اعظم گڑھ کی نظام آباد اسمبلی سیٹ: ’تمام امیدوار ایسے ہیں کہ ووٹروں کو سمجھ نہیں آ رہا کسے ووٹ نا کریں!‘

عالم بدی نظام آباد اسمبلی سیٹ سے پوری طرح سے جڑے ہوئے ہیں، حامی اور مخالفین سبھی ان کے اعزاز میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک بار جب انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا تو سماج وادی پارٹی وہ الیکشن ہار گئی تھی۔ کانگریس بھی چار بار اس سیٹ پر جیت چکی ہے۔ 3 لاکھ 10 ہزار کی آبادی والی اس سیٹ پر 2 لاکھ صرف یادو اور مسلم ووٹر ہیں۔ نظام آباد کی اس سیٹ پر 2017 میں صرف 40 فیصد پولنگ ہوئی تھی اور عالم بدی کو 67 ہزار ووٹ ملے تھے، جس نے بی ایس پی کے چندرسین کو شکست دی تھی۔

بی ایس پی نے یہاں پیوش کمار سنگھ کو میدان میں اتارا ہے اور بی جے پی نے منوج یادو کو امیدوار بنایا ہے۔ اس سیٹ کی لکھنؤ تک چرچا ہے۔ لکھنؤ کے شان حیدر بتاتے ہیں کہ عالم بدی صاحب اس شخص کا نام ہے جو کئی بار وزارتی عہدہ ٹھکرا چکے ہیں اور اس کے پیچھے ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا علاقہ نہیں چھوڑیں گے۔ وہ نظام آباد کے لیے پوری طرح وقف ہیں، وہ ہزاروں لوگوں کو نام سے پکارتے ہیں۔ حالانکہ کانگریس کے انیل یادو اور رہائی منچ راجیو یادو نے بھی جدوجہد سے اپنی پہچان بنائی ہے لیکن انہیں لگتا ہے کہ نظام آباد ایک بار پھر عالم بدی کو فتح یاب کرے گا۔ نظام آباد کے نریندر یادو کا کہنا ہے کہ یہاں مسئلہ کافی پیچیدہ ہو گیا ہے۔ دل کہیں ہے اور دماغ کہیں۔ ایک طرف حکومت بدلنی ہے اور دوسری طرف مستقبل کا لیڈر کھڑا ہے۔

اعظم گڑھ کی نظام آباد اسمبلی سیٹ: ’تمام امیدوار ایسے ہیں کہ ووٹروں کو سمجھ نہیں آ رہا کسے ووٹ نا کریں!‘

انیل یادو جوان ہیں ان کے پاس تمام خوبیاں ہیں جو انہیں مستقبل کا لیڈر بناتی ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ نوجوانوں کی اکھلیش یادو پر بھی نظر ہے۔ اعظم گڑھ میں بی جے پی مخالف ہوا چل رہی ہے۔ عوام ووٹ کی تقسیم سے بچنا چاہتے ہیں لیکن وہ انیل یادو اور راجیو یادو جیسے نوجوانوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتے۔ الجھن کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ تو کیا ایسی صورت حال میں بی جے پی امیدوار کو فائدہ ہو سکتا ہے؟ مقامی باشندے نریندر یادو سے پوچھے جانے پر کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہاں کی یادو برادری نے لوک سبھا میں یکطرفہ طور پر دنیش یادو نرہوا کو شکست دے کر اپنا موقف صاف کر دیا تھا۔ اکھلیش یادو یہاں سے ایم پی ہیں۔ بی جے پی امیدوار منوج یادو کو اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے اپنے سابق ایم ایل اے چچا انگد یادو کا نام لینا پڑ رہا ہے! بی جے پی انتخابی جنگ میں بھی نہیں! الیکشن ایس پی اور کانگریس کے درمیان نظر آرہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔