عالمی آواز: ٹرمپ کی شکست کے اثرات دنیا کے کئی ممالک پر نظر آنے لگے!
اگر ان ممالک کے سیاسی رہنماؤں نے اپنے نظریات میں تبدیلی نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب یہ حکمراں بھی ٹرمپ کی طرح تاریخ نہ بن جائیں۔ اب ٹرمپ کی شکست کے اثرات دنیا کے کئی ممالک پر نظر آنے لگے ہیں۔
کورونا وبا کے دوران امریکہ میں بڑی سیاسی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ سیاسی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جس طرح سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکہ کی پارلیمنٹ یعنی کیپیٹل ہل پر پرتشدد مظاہرہ کیا وہ امریکی تاریخ میں تو ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا ہی جائے گا، ساتھ میں اس واقعہ نے امریکی جمہویرت کو بھی داغدار کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیا عوامی تحریکوں کا دور ختم ہوجائے گا؟... سید خرم رضا
اس سیاہ باب کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کو ڈونالڈ ٹرمپ سے نجات مل گئی۔ ٹرمپ کی شکست کسی ایک فرد کی شکست نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچ اور نظریہ کی شکست ہے۔ ٹرمپ کی سوچ یہ تھی کہ جو وہ کرتے ہیں وہی صحیح ہے اور اس سوچ کی وجہ سے انہوں نے اشخاص اور اداروں کو پوری طرح تباہ کر دیا تھا۔ دائیں بازو کی قوم پرستی کے نظریہ پر عمل کرنے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جس طرح امریکہ میں تفریق اور تقسیم کی سیاست کو فروغ دیا تھا اس کی نقل دنیا کے کئی رہنماؤں نے کی۔ ٹرمپ کے اس نظریہ کی نقل کرنے کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک تقسیم اور تفریق کی سیاست نظر آنے لگی جس کی وجہ سے سماج میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا بازار گرم ہو گیا۔
ٹرمپ کی شکست کے اثرات صرف امریکہ تک محدود نہیں رہے بلکہ پوری دنیا میں قوم پرست رہنماؤں کے خلاف آواز بلند ہونے لگی۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف مظاہرے شباب پر ہیں۔ پوتن کے سب سے کٹر مخالف الیکسی نوالنی کو ڈھائی سال کی سزا کا اعلان ہوا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں نوجوان سڑکوں پر آ گئے۔ حکومت نے ان مظاہروں پر قابو پانے کے لئے بڑے پیمانہ پر لوگوں کو حراست میں لینا شروع کر دیا۔ مظاہرین میں زیادہ تر تعداد ان نوجوانوں کی ہے جن کی عمر 20 سال یا اس سے تھوڑا زیادہ کی ہے۔ اپنے 20 سالہ دور اقتدار میں پوتن کے لئے یہ سب سے زیادہ خراب دور ہے جب بڑی تعداد میں لوگ ان کے خلاف سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ مظاہروں میں شرکت کی وجہ سے روسی حکومت نے تین ممالک کے سفیروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم بھی دے دیا ہے۔
جو روس کی صورتحال ہے کچھ ایسی ہی صورتحال ترکی کی بھی ہے جہاں طیب اردوغان کے ایک فیصلہ کے خلاف استنبول میں طلباء سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ طیب اردوغان بھی ولادیمیر پوتن کی طرح ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں غصہ مزید بڑھ رہا ہے۔ دراصل طیب اردوغان نے ترکی کی معروف علمی درسگاہ بوگازی یونیورسٹی میں اپنی پارٹی کے میلح بُولُو کو نیا ناظم یعنی ریکٹر تقرر کر دیا ہے۔ طلباء اس فیصلہ کو غیر جمہوری قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ریکٹر یونیورسٹی سے ہی ہونا چاہیے۔ طلباء کو یہ بھی خدشہ ہے کہ میلح بُولُو کی تقرری سے یونیورسٹی میں بنیاد پرستی میں اضافہ ہوگا جو یونیورسٹی کی شبیہ کو نقصان پہنچائے گا۔ طلباء نے اس تقرری کے خلاف مظاہرے کیے اور طیب اردوغان نے ان مظاہروں کو کچلنے کے لئے کارروائی کی جس کے نتیجے میں ان مظاہروں کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ استنبول کے میئر اور حزب اختلاف کے رہنما اکرام امام اوگلو نے بھی طلباء کی حمایت کی ہے۔ ان مظاہروں کی حمایت امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نے کی ہے جس پر طیب اردوغان بھڑک گئے ہیں۔
یہ وہ اشارے ہیں جن پر ان عالمی طاقتوں کو غور کرنا چاہیے جو ٹرمپ کے انداز میں اپنے ملکوں میں قوم پرستی کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔ لوگ بنیادی مسائل کو لے کر اب سڑکوں پر اتر رہے ہیں اور جس طرح امریکہ میں ’بلیک لائیوس میٹر‘ نے ٹرمپ کے خلاف ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی ویسے ہی یہ مظاہرے بھی کہیں تحریک کی شکل نہ اختیار کر لیں۔ اگر ان ممالک کے سیاسی رہنماؤں نے اپنے نظریات میں تبدیلی نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب یہ حکمراں بھی ٹرمپ کی طرح تاریخ نہ بن جائیں اور تاریخ بھی سیاہ نہ ہو۔ اب ٹرمپ کی شکست کے اثرات دنیا کے کئی ممالک پر نظر آنے لگے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔