ندائے حق: کیسے روسی تیل پابندیوں کے باوجود امریکہ پہنچ رہا ہے؟... اسد مرزا

’’یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے روس سے درآمد کیے جانے والے خام تیل کی عالمی منڈیوں میں فروخت پر پابندی لگا دی تھی، اس کے باوجود یہ تیل امریکہ پہنچ رہا ہے‘‘

روسی جارحیت کے خلاف مظاہرہ / Getty Images
روسی جارحیت کے خلاف مظاہرہ / Getty Images
user

اسد مرزا

روس-یوکرین جنگ کو شروع ہوئے تقریباً 108 دن ہوچکے ہیں۔ گزشتہ مارچ میں امریکہ کی قیادت میں دیگر کئی مغربی ممالک نے روس سے درآمد کی جانے والی مختلف پٹرولم اشیاء اور خاص طور پر خام تیل کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس اعلان کے بعد آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ نے سب سے زیادہ پہل دکھائی تھی۔ جبکہ 27 رکنی یوروپی یونین تنظیم ابھی تک اس پر کوئی جامع حکمت عملی قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم امریکہ سے شائع ہونے والے اخبار وال اسٹریٹ جرنل (WSJ) کی ایک حالیہ رپورٹ جو بدھ 1 جون کو شائع ہوئی ہے، اس کے مطابق Kpler Analytics جو کہ عالمی سطح پر مختلف اشیاء کے عالمی کاروبار کے اعداد و شمار پر رپورٹس شائع کرتی ہے اس کے مطابق آج کے دن بھی روسی خام تیل مختلف امریکی شہروں میں درآمد کیا جا رہا ہے۔

WSJ نے Kpler کے حوالے سے کہا ہے کہ ابھی بھی چین اور ہندوستان کافی بڑی مقدار میں روسی خام تیل کی خریداری کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی سرکاری تیل کمپنیوں کے علاوہ دو نجی کمپنیاں ریلائنس انڈسٹریز اور نیارا انرجی (جس میں روس کی کمپنی Rosnfet بھی شریکِ کار ہے) روس سے خام تیل خرید رہے ہیں۔ Kpler کی رپورٹ کے مطابق ان دونوں کمپنیوں نے مئی کے مہینے میں یوکرین جنگ سے پہلے کے مقابلے میں سات گنا زیادہ روسی تیل خریدا۔ ریلائنس اور نیارا کے ترجمان نے وال اسٹریٹ جنرل کی اس رپورٹ کی ابھی تک تردید نہیں کی ہے، گو کہ ان سے کئی مرتبہ اخبار نے اس سلسلے میں ان کا ردِ عمل جاننے کی کوشش کی۔


لاری میلی ورٹا جو کہ سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر کی سینئر تجزیہ نگار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’ممکنہ طور پر کیا ہوا ہے کہ دراصل ریلائنس روسی خام تیل کا رعایتی قیمتوں پر سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے، اور پھر وہ اس تیل کو قلیل مدتی مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے جہاں اسے امریکی کمپنیاں خرید رہی ہیں۔‘‘ یہ تیل دونوں شکلوں میں یعنی کہ خام تیل کی شکل میں اور پٹرول، ڈیزل اور دیگر پٹرولیم مصنوعات کی شکل میں امریکی صارفین تک پہنچ رہا ہے۔

ہندوستان نے جنگ کے دوران روس کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھے ہیں اور رعایتی خام تیل کو بڑے مقدار میں خرید رہا ہے۔ تنازع شروع ہونے کے بعد سے جنوبی ایشیائی ملک کی درآمدات یومیہ 800,000 بیرل تک بڑھ گئی ہیں، جبکہ اس سے قبل یہ 300,000 بیرل یومیہ تھی۔ دریں اثنا، WSJ کے مطابق، امریکی دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول نے واضح نہیں کیا ہے کہ آیا ریفائنڈ تیل کی مختلف مصنوعات کی درآمدات اس کے اختیاری قوانین میں شامل ہیں یا نہیں۔


Kpler کے تیل کے اہم تجزیہ کار میٹ اسمتھ نے انسائیڈر ویب سائٹ کو بتایا کہ ''عالمی منڈی سے روسی توانائی کے پروڈکس کو مکمل طور پر ختم کر دینا ناممکن ہے۔ اگر ہندوستان روسی خام تیل خرید رہا ہے اور اسے دوسرے کروڈز کے ساتھ ملا رہا ہے اور پھر اسے پٹرول یا ڈیزل میں ریفائن کر رہا ہے، تو اس کو ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کیا یہ پروڈکٹس روسی خام تیل سے تیار کیے گئے ہیں۔‘‘ امریکن فیول اینڈ پٹرو کیمیکل مینوفیکچررز (AFPM) ٹریڈ ایسوسی ایشن کے مطابق، 2021 میں، امریکہ نے روس سے اوسطاً 209,000 بیرل یومیہ (bpd) خام تیل اور 500,000 bpd دیگر پٹرولیم مصنوعات درآمد کی تھیں۔

یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا ،امریکہ کے ساؤڈر اسکول آف بزنس کے پروفیسر ایڈم پینکریٹز نے الجزیرہ چینل کو بتایا کہ دراصل اس وقت امریکی حکومت بڑے پس و پیش میں ہے۔ کیونکہ عالمی منڈی میں روسی تیل کی فراہمی کو روکنے کی وجہ سے یکم جون کو خام تیل کی قیمت $110 فی بیرل تک پہنچ گئی تھی۔ اگر تیل کی قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیں تو یہ بائیڈن انتظامیہ کے حق میں نہیں جائے گا۔ کیونکہ اس سے ایک جانب افراط زر کی شرح میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا اور اس کا غیر مثبت اثر صدر بائیڈن کی مقبولیت پر بھی ہوسکتا ہے، جس میں کہ مسلسل کمی آتی جا رہی ہے۔ اور اگر یہ کمی اسی طرح برقرار رہی تو اس کا اثر آئندہ نومبر میں ہاؤس آف ریپرنٹیٹو کے انتخابات اور خود صدر بائیڈن کے اگلے صدارتی امیدوار کی نامزدگی پر بھی رونما ہوسکتا ہے۔


درحقیقت صدر بائیڈن خود اپنی ہی پابندیوں کے جال میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔ تاہم اس منظر نامے میں امریکی حکومت جو مثبت حکمت عملی اپنا سکتی ہے۔ اس پر اس نے ابھی تک غوروخوض نہیں کیا ہے۔ عالمی تیل کی صنعت کے ماہر سائمن واٹکنز نے Oilprice.com کو بتایا ہے کہ اگر امریکہ جو کہ عراق کی تعمیر نو کا دم بھرتا ہے، اگر وہ عراق کی تیل صنعت کو فروغ دے تو عالمی منڈی میں کثیر مقدار میں خام تیل مہیا کرایا جاسکتا ہے۔

سائمن واٹکنز کے مطابق عراق کے ساتھ 145 ارب بیرلس کے تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اور آج بھی وہ صرف چالیس لاکھ bpd یومیہ تیل زمین سے نکال رہا ہے۔ جبکہ OPEC کوٹے کے مطابق وہ 45لاکھ bpd تیل کی پیداوار کرسکتا ہے۔ عراقی حکومت نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جون کے مہینے میں وہ تیل کی اپنی پیداوار میں مزید اضافہ کرے گا۔ سائمن کا کہنا ہے کہ اگر رومیلا، زبیر، مشرف، ترمد، ثیقار، غریف اور نصیریہ کے تیل ذخائر میں تیل کی پیداوار میں وسعت لانے کے لیے عراقی حکومت کو امریکی کمپنیوں کی پیشہ وارانہ صلاحیت مہیا کرائی جاتی ہے، جس کی عراق کو سخت ضرورت ہے، تو عالمی سطح پر تیل کی پیداور میں بھی اضافہ ہوگا اور اس کے ساتھ ہی تیل کی قیمتیں کافی کم ہوسکتی ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کے اس عزم کا عملی طور پر مظاہرہ ہوسکتا ہے جو کہ وہ عراق کی تعمیر نو کے سلسلے میں گزشتہ دس سال سے دم بھر رہا ہے۔


مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جس جذباتی طریقے سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے روس پر معاشی پابندیاں عائد کی تھیں، اگر ان کے غیر مثبت اثرات سے دنیا بھر کی حکومتوں کو مالی نقصان اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بچانا ہے تو پھر امریکہ کو ایک دانشمندانہ حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں عراق کی تیل صنعت کو فروغ دینا ایک اہم جزو بن سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔