ندائے حق: عالمی تیل پر امریکی اجارہ داری قائم کرنے کی سازش... اسد مرزا
’’ایک حالیہ بل امریکی انتظامیہ کو اوپیک کے ان گمراہ اراکین کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار دے سکتا ہے، جو تیل کی بین الاقوامی قیمتوں پر امریکی مفادات کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
دنیا بھر میں خام تیل پیدا کرنے والے ممالک کی سب سے بڑی تنظیم اوپیک -OPEC (آرگنائزیشن آف دی پٹرولیم ایکسپورٹ کنٹریز) کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کے طریقے وضع کرنے کے لیے امریکی حکومت نے روس- یوکرین جنگ کے بعد اپنی کوششیں کافی تیز کردی تھیں۔ یہ کوششیں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری تھیں اور ان میں امریکہ کئی بار ناکام ہوچکا تھا، لیکن آخر کار امریکی قانون ساز ایک ایسا قانون لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جو اوپیک ممالک اور خاص طور سے سعودی عرب کی بالادستی اور عالمی سطح پر خام تیل کی پیداوار اور پٹرولیم کی قیمتوں پر امریکی احکامات کو کوئی چیلنج نہیں دے سکتا ہے۔
NOPEC کیا ہے؟
امریکی سینیٹ کی قانونی کمیٹی نے 5 مئی کو ایک بل کو منظوری دے دی، جو اوپیک کے رکن ممالک کو بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے ملی بھگت کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنے کے علاوہ ان کی طرف سے پیداوار کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔ تازہ ترین بل سینیٹرز، ریپبلکن چک گراسلے اور ڈیموکریٹ ایمی کلبوچر نے پیش کیا تھا، اور سینیٹ کی قانونی کمیٹی نے اسے 17-4 سے پاس کیا تھا۔
امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں یعنی ریبپلکنس اور ڈیموکریٹس دونوں کی جانب سے اس نئے بل کو جس کا نام 2021'' یا ''NOPEC''، OPEC اور اس کے رکن ممالک کی ملکیت والی تیل کمپنیوں کو قانونی خودمختاری استثنیٰ کی آزادی سے محروم کر سکتا ہے جس نے انہیں دہائیوں سے قانونی چارہ جوئی سے محفوظ رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خام تیل نکالنے والے ممالک امریکی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے مزید محفوظ نہیں رہیں گے اگر وہ بل کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے اس مجوزہ بل کو قانون کی شکل اختیار کرنا ہوگی۔
ابNOPEC2021 بل کو مکمل سینیٹ اور ایوان سے پاس کرانا ہوگا اور قانون بننے کے لیے صدر جو بائیڈن کے دستخط ہوں گے۔ بل منظور ہونے کی صورت میں، امریکی اٹارنی جنرل اوپیک یا اس کے رکن ممالک جیسے سعودی عرب، کے خلاف امریکی وفاقی عدالتوں میں مقدمہ کر سکیں گے۔ دوسرے ان ممالک پر جیسے کہ روس جو کہ اوپیک کی وسیع شکل جسے OPEC+ کہا جاتا ہے ان پر مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے یا ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔
مجموعی طور پر، ہر امریکی سیاست دان بل کے حق میں نظر نہیں آتا ہے، اور اسے سینیٹ اور ایوان میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ میں تیل پیدا کرنے والی سب سے بڑی ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سینیٹر جان کارنین نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اوپیک امریکہ کو تیل مہیا کرانے پر پابندی لگا سکتا ہے اور ساتھ ہی امریکی کمپنیوں پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ امریکہ میں تیل اور گیس کی زیادہ پیداوار کریں۔ یہ توانائی کے طویل مدتی امریکی پالیسیوں اور ممکنہ منظرناموں پر اپنے ذخائر کو ختم کرنے کے مترادف ہوسکتا ہے۔ اور امریکہ میں پٹرولیم کے اخراج کو محدود کرنے کی امریکی پالیسی کے مکمل طور پر خلاف جاسکتا ہے۔ امریکن پٹرولیم انسٹی ٹیوٹ-API، امریکہ کا سب سے بڑا تیل اور گیس لابنگ گروپ ہے، اس نے بھی NOPEC کی مخالفت کی ہے۔ کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ اس بل کا مجموعی اثر صرف تیل کی قیمتوں پر ہی نہیں بلکہ امریکہ کی دفاعی سفارتی اور مالیاتی پالیسیوں پر بھی غیر مثبت طور پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
NOPEC کی وجہ کیا ہے؟
دراصل سعودی عرب اور اوپیک کے کئی دوسرے رکن ممالک نے حال ہی میں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے تیل کی پیداوار کو بتدریج حد سے زیادہ بڑھانے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا، جن کا مطالبہ امریکہ اور ناٹو ممالک یوکرین پر روسی حملے کے خلاف، روس پر عائد معاشی پابندیوں کی وجہ سے روسی تیل اور گیس سپلائی میں کمی کا سامنا کر رہے تھے۔ بنیادی طور پر، NOPEC کا مقصد امریکی صارفین اور کاروباری اداروں کو پٹرولیم کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے سے بچانا ہے، لیکن کچھ تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد کے کچھ خطرناک اور غیر ارادی نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
2019 میں، سعودی عرب نے دھمکی دی تھی کہ اگر واشنگٹن نے NOPEC کو پاس کیا تو وہ ڈالر کے علاوہ دیگر عالمی کرنسیوں میں تیل فروخت کرنا شروع کردے گا، یہ ایک ایسا قدم تھا جس سے دنیا کی اہم ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کی حیثیت کو نقصان پہنچ سکتا تھا، عالمی تجارت میں واشنگٹن کا اثر کم ہو سکتا تھا اور ان ممالک پر پابندیاں نافذ کرنے کی اس کی صلاحیت کمزور ہو سکتی تھی۔
دراصل کووڈ -19 وبا کے بعد جب تیل کی عالمی قیمتیں 10 ڈالر فی بیرل کم ہوگئی تھیں تو OPEC+ ممالک نے خام تیل کی پیداوار کو کم کرنے اور تیل کی قیمتوں کو ایک کم سے کم سطح کے اوپر قائم رکھنے کے لیے تیل کی پیداوار کے لیے عالمی پیمانے پر ایک نیا نظام شروع کیا تھا، جس کے تحت کوئی بھی ملک اپنے طور پر خام تیل کی پیداوار میں اضافہ نہیں کرسکتا تھا بلکہ قیمتوں کو ایک سطح پر قائم کرنے کے لیے تمام رکن ممالک ہر سہ ماہی تیل کی پیداوار کو کم کرنے یا بڑھانے کے ضمن میں فیصلہ لینے کے مختار بنا دیئے گئے تھے۔
اس کے علاوہ امریکی تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ NOPEC بالآخر گھریلو توانائی کمپنیوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ درحقیقت سعودی اور اوپیک کے ارکان امریکی کمپنیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستا تیل پیدا کرتے ہیں اور اگر انہیں زیادہ پیداوار کے ساتھ عالمی منڈیوں میں سیلاب لانے پر مجبور کیا گیا تو امریکی تیل کمپنیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اوپیک کو اکثر ایک کارٹیل یعنی کہ ایک ایسی منظم تنظیم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو کہ اپنے مفادات کی بنا پر خام تیل کی عالمی قیمتوں کو کم یا زیادہ کرسکتی ہے۔ اور ان رکن ممالک کو تنظیم سے باہر کرسکتی ہے، جو OPEC کی بات نہیں مانتے ہیں۔ OPEC کے ممبران دنیا کی خام تیل کی پیداوار کا تقریباً 40 فیصد حصہ سالانہ زمین سے نکالتے ہیں ، بین الاقوامی سطح پر تجارت کیے جانے والے پٹرولیم کا تقریباً 60 فیصد OPEC ممالک سے آتا ہے اور ان کے پاس دنیا کے ثابت شدہ تیل کے 80 فیصد ذخائر بھی موجود ہیں۔
NOPEC بل اگر اور جب بھی نافذ کیا جائے گا تو، فوری طور پر اور ڈرامائی طور پر OPEC کے اقدامات کو خاص طور پر اس کے ڈی فیکٹو یعنی کہ اصل لیڈر سعودی عرب کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ یہ فوری طور پر سعودی عرب اور اس کی تیل کی کمپنی ARAMCO کے خلاف امریکی اینٹی ٹرسٹ قانون سازی کے تحت ان پر مقدمہ دائرکیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس سے امریکہ میں ARAMCO اور سعودی عرب کی مستقبل کی سرمایہ کاری بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ بلکہ ایک طریقے سے گزشتہ تین سالوں میں سعودی عرب نے امریکہ میں اپنی سرمایہ کاری کم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
یہ بل اب کیوں لایا جا رہا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ اس بل کو سینیٹ کی کمیٹی کے ذریعے جلد بازی میں پیش کیا گیا تھا، کیونکہ اپریل کے مہینے میں CNN کے ذریعے کرائے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوا تھا کہ امریکیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ بائیڈن حکومت کی پالیسیوں نے امریکی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے، جب کہ 10 میں سے 8 کا کہنا تھا کہ حکومت مہنگائی سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں لے رہی ہے۔ اس کے علاوہ صدر بائیڈن کو اسی سال نومبر میں وسط مدتی انتخابات کا سامنا بھی ہے، اس طرح اگر وہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں تو ایوانِ زیریں یعنی کہ House of Representatives میں ان کی پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوسکتی ہے۔ اور اس کا مجموعی اثر اگلے صدارتی انتخابات میں بائیڈن کے حصہ نہ لینے کی وجہ بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ چار مہینوں کے دوران سعودی ولی عہد MbS اور UAE کے حکمران خلیفہ محمد بن زائد نے امریکی صدر کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد کے لیے ان کی ٹیلی فون کال ریسیو کرنے سے متعدد بار انکار کر دیا تھا، جس نے اس رویے پر امریکی انتظامیہ کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ لہٰذا NOPEC بل کو ان دو ممالک کے خلاف کسی ممکنہ کارراوئی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر جس انداز میں امریکہ حرکت کرتا ہے اور سوچتا ہے تو ایسا ممکن ہے کہ روس -یوکرین جنگ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کے خلاف ایک بہت بڑی کارروائی شروع ہو جائے۔
یہ بھی پڑھیں : مودی جی کی نیاری بھیٹ، یوگاسن اور خالی پیٹ... اعظم شہاب
بالآخر، اسے امریکی انتظامیہ کی طرف سے اپنے سابقہ دوست اور دشمنوں پر جوابی حملہ کرنے کے اقدام کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو ان کی طرف سے امریکی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور اپنی معیشت کو زیادہ مستحکم کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن اس طرح وہ امریکہ کہ ساتھ اپنی وفاداری کھو بیٹھے ہیں۔ اور ماضی میں اس کے غیر مثبت اثرات کا مقابلہ کرتے نظر آسکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔