ندائے حق: چین-اسرائیل تعلقات، نئی منزلوں کی جانب گامزن... اسد مرزا
امریکا کو ان اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں چین کی سرمایہ کاری اور مشترکہ تحقیق پر بھی تشویش لاحق ہے، جو سائبر سیکورٹی، آرٹیفیشئل انٹلی جنس اور سیٹلائٹ ٹیلی کمیونیکیشن کا استعمال کرتی ہی
چین او راسرائیل کے درمیان حالیہ برسوں میں اقتصادی تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسرائیل دونوں ملکوں کے مابین سیاسی اور ثقافتی رشتوں کو مضبو ط کرنے کے لیے بھی کافی محنت کر رہا ہے۔ وجود میں آنے کے بعد پچھلے 72 برسوں کے دوران امریکا کو چھوڑ کر اسرائیل کے صرف چند ایک ہی دوست ممالک رہے ہیں۔ اس لیے مختلف ممالک کے ساتھ اسرائیل کی سفارتی پیش رفت، اس کی بہت بڑی سیاسی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ اپنی سفارتی پہل کے ذریعہ اسرائیل اب ہندوستان کا قریبی دوست بن چکا ہے، جو اسرائیلی دفاعی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے خلیجی ممالک حال ہی میں اس کے دوست ممالک کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔ لیکن اسرائیل، چین کو اپنا سب سے اہم ترین حلیف سمجھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ندائے حق: جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی... اسد مرزا
علاقائی اثرو رسوخ بڑھانے کا ذریعہ
چین اپنے بیلٹ اینڈروڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) کے ذریعہ مشرق بعید سے یورپ تک تجارت پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لیے اسرائیل کو ایک اہم رابطہ کار کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔ بی آر آئی چین کا کھربوں ڈالر کا منصوبہ ہے۔ جس کے تحت وہ ایشیاء اور مشرقی وسطی نیز افریقی ممالک کو غیر واجب الادا قرضے دے کرانہیں اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیجنگ اس کی آڑ میں دوسرے ملکوں کی خارجہ پالیسی کو اپنے حق میں استوار کرانے اور جن ملکوں کے امریکہ کے ساتھ فوجی تعلقات ہیں ان کی انٹلی جنس تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیل اور چین کے درمیان تعلقات صرف اقتصادی یا دفاعی امور تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا دائرہ دونوں ملکوں کے عوام یا سماجی رابطوں تک بھی پھیلا ہوا ہے، جو بالآخر سیاسی قربت پر منتج ہوتی ہے۔ چینی امور کے ماہر، سنگاپور کی نیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں ایس راج رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیزمیں سینئر فیلو، جیمس ایم ڈورسے کا خیال ہے کہ چین کے بین الاقوامی اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ وہ، چار ممالک اسرائیل، یونان، لبنان اور شام کے چھ بندرگاہوں کے ساتھ مشرقی بحیرہ روم پر غلبہ حاصل کرلے، اس سے نہر سویز کا ایک متبادل تیار ہوجائے گا۔ تاہم اس میں ترکی، قبرصی اور مصری بندرگاہیں شامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ چینی فوجیوں کی موجودگی نے اس خطے میں امریکہ اور نیٹو کی حکمت عملی کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ حیفہ میں چین کی سرگرمیوں کے تئیں اسرائیل کو پہلے ہی متنبہ کرچکی ہے کیونکہ چین کی موجودگی سے امریکا کے پانچویں بحری بیڑے کے لیے بندرگاہ کے مسلسل استعمال کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔
چین اپنے سیاسی مفادات کے خاطر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے مستقل گامزن ہے۔ چین کی مشرق وسطی پالیسی میں اسرائیل کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ چین نے اپنی سفارتی مہم کے تحت مختلف عرب ممالک اور ایران کے ساتھ پچھلے کئی برسوں سے اچھے تعلقات استوار کر رکھے ہیں، اس مہم میں اسرائیل کو بحری شاہراہ ریشم پروجیکٹ کا ایک اہم مرکز بناکر اپنی مشرق وسطی پالیسیوں کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ اس اعلی سطحی رابطہ کی وجہ سے ثقافتی اور علمی شراکت داری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل نے چین میں اپنی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کیا ہے، حالانکہ وہ ایسا شاذو نادر ہی کرتا ہے۔
چین کا اسٹریٹیجک مفاد اس حقیقت پر مبنی ہے کہ اسرائیل دنیا کے سب سے بڑے کمرشیل، فوڈ اور سیکورٹی ٹیکنالوجی پاور ہاوس میں سے ایک ہے اور اسے امریکا میں زمینی سطح پر خاطر خواہ عوامی حمایت حاصل ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان پچھلے دس برسوں میں باہمی تجارت میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہے اور سالانہ 14 ارب ڈالر کی باہمی تجارت کے ساتھ چین، اسرائیل کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا ہے۔
چین۔اسرائیل تعلقات امریکا کی نگاہ میں
امریکا ان تعلقات کو ایک ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھتا ہے کیوںکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس قربت کے نتیجے میں چین اسرائیل کے ذریعہ امریکا کی جاسوسی کرسکتا ہے۔ اسرائیل اور چین کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں امریکی فکر مندی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حال ہی میں متعدد جدید ترین شعبوں میں اسرائیل کے انفرا اسٹرکچر، ریسرچ اور ڈیولپمنٹ میں چین کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اسرائیل کو وارننگ دی تھی کہ اگر اس نے ان سرگرمیوں سے خود کو الگ نہیں کیا تو امریکا-اسرائیل کے ساتھ اپنے سیکورٹی تعلقات پر غور کرسکتا ہے۔
امریکا نے جن امور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ان میں شنگھائی انٹرنیشنل پورٹ گروپ کے ذریعہ حیفہ بندرگاہ کو 25 برس کے لیے چین کے آپریشنل کنٹرول میں دینا شامل ہے، جہاں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا کھڑا ہے۔ بعض ماہرین اسے امریکی سیکورٹی اور انٹلی جنس کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ امریکا کی تشویش یہ ہے کہ یہ بندرگاہ 60 سے زائد ملکو ں کو جوڑنے والے چین کے نئے ’شاہراہ ریشم‘ پروگرام کا بنیادی پتھر بن سکتا ہے۔
تنازع کی ایک اور وجہ چین کا ریلوے ٹنل گروپ ہے جو تل ابیب کے لائٹ ریل ٹرانسپورٹیشن سسٹم کے سلسلے میں معاہدہ کے قریب ہے۔ اسے بھی ایک بڑے سیکورٹی خطرے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ چین کا اسرائیل میں پہلا انفرااسٹرکچر پروجیکٹ کارمل ٹنل کی تعمیر تھا، اس پر بھی امریکا نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ بیجنگ چینی کمپنیوں کی آڑ میں اپنے انٹلی جنس اہلکاروں کو مدد سے غیر معمولی انٹلی جنس تک رسائی حاصل کرلے گا، جس سے امریکی اور اسرائیلی دونوں ہی کے سیکورٹی مفادات متاثر ہوں گے۔
اسرائیل کے سامنے اگر کوئی واحد رکاوٹ ہے توصرف یہ ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں کسی طرح کا رخنہ نہیں چاہتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ امریکا واحد ملک ہے جو مغربی کنارہ کو ضم کرنے کے اسرائیلی منصوبے کی حمایت کر رہا ہے۔ اسرائیل کو بہر حال اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات اس کے لیے کتنے سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ امریکا اسرائیلی انفرااسٹرکچر میں چینی دراندازی کی وجہ سے اپنی ان سرگرمیوں کو تباہ ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
امریکا کو ان اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں چین کی سرمایہ کاری اور مشترکہ تحقیق پر بھی تشویش لاحق ہے، جو سائبر سیکورٹی، آرٹیفیشئل انٹلی جنس اور سیٹلائٹ ٹیلی کمیونیکیشن کا استعمال کرتی ہیں اور انہیں زیڈ ٹی ای اور ہواوے جیسی چینی کمپنیاں استعمال کرسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل کے پاس ایسا کوئی فارمولہ ہے جس سے وہ امریکا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوسکے کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات کے باوجود امریکی مفادات متاثر نہیں ہوں گے اور دوسری طرف چین کو بھی یہ یقین دلاسکے کہ وہ ان حدود کے باوجود اسرائیلی اثاثوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اسرائیل اور چین کے تعلقات میں پیش رفت کے خواہش مند، سائنو۔اسرائیل گلوبل نیٹ ورک اینڈ اکیڈمک لیڈرشپ (سگنل) کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر کاریس ویٹے کہتے ہیں’’مناسب اقدامات کے بغیر ہم ایک ایسی صورت حال پر غور کر رہے ہیں جس میں امریکا ہمیں یہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں چین کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرلینے یا محدود کرلینے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی آزادی چاہتا ہے لیکن اس کے رویے سے یہ واضح نہیں ہے کہ وہ حقیقتاً امریکی تشویش کو بھی سمجھتا ہے۔‘‘
گوکہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اسرائیل اقتصادی طور پر پریشانیوں سے دوچار ہے تاہم اسے مختصر مدتی مالی نقصانات کے باوجود امریکا کی وارننگ پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے طویل مدتی سیکورٹی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Oct 2020, 11:10 PM