کیا امریکہ نے 9/11 کے حملوں سے کوئی سبق سیکھا؟
امریکی اپنے لوگوں کے نام نہاد خصوصی مشن کے بارے میں توہم پرست ہیں اور جنگ کے ذریعے اپنی مرضی دنیا پر مسلط کرتے ہیں۔ ایک مختلف تہذیب سے نمٹنے کے دوران امریکہ ہمیشہ ظالم اور سخت رہا ہے۔
کابل ہوائی اڈے سے فوجی انخلا کے افراتفری کے مناظر نے شمالی کوریا اور ویت نام میں امریکی شکستوں کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ ان تمام جنگوں میں مماثلت یہ ہے کہ امریکہ نے انصاف کے بینر تلے ایک ناجائز جنگ شروع کی اور جب اس کا ٹکے رہنا مشکل ہوگیا تو اسے میدان جنگ سے دستبردار ہونا پڑا۔ نائن الیون (9/11) حملوں کے بعد امریکہ نے انسداد دہشت گردی کے نام پر افغانستان میں جنگ شروع کی اور وہاں امریکہ نواز حکومت قائم کی، لیکن بیس سال بعد جب امریکہ اس ناقابل تسخیر سرزمین سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوا تو انسداد دہشت گردی اور افغانستان کی جمہوری تبدیلی سے متعلق کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہوا۔ دنیا میں آج بھی ہر روز دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں اور افغانستان بھی اپنی اصل حالت میں واپس آ گیا ہے۔ تاریخ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکیوں نے جو نام نہاد جمہوری تبدیلیاں کیں، جیسے مغربی یورپ اور مغربی بحرالکاہل، یہ سب امریکی فوجی چھتری تلے کی گئیں۔ طاقت کی بحالی کے بغیر، ان جگہوں پر جمہوری نظام واقعی ایک دن کے لیے نہیں چل پائے گا۔
امریکی اپنے لوگوں کے نام نہاد خصوصی مشن کے بارے میں توہم پرست ہیں اور جنگ کے ذریعے اپنی مرضی دنیا پر مسلط کرتے ہیں۔ ایک مختلف تہذیب سے نمٹنے کے دوران امریکہ ہمیشہ ظالم اور سخت رہا ہے لیکن امریکہ کے خلاف جوابی حملے بھی فطرتی طور پر بہت مضبوط رہے اور نائن الیون کے حملوں نے یہی ثابت کیا۔ ظلم کے شکار لوگ فطری طور پر دشمن کی مخالفت کرنا چاہتی ہے، اسے ہر ممکن طریقے سے جوابی کارروائی کرنی ہوتی ہے، چاہے مزاحمت کا طریقہ مہذب ہو یا نہ ہو!
ہم ایک جیسی قسمت والے معاشرے میں رہتے ہیں، جب مختلف نظریات اور ماڈلز کے ساتھ کام کرتے ہیں تو ایک مختلف تہذیب کی طرف طاقت کے استعمال کے بجائے مشاورت کے ذریعے رضامندی حاصل کرنا ضروری ہوتی ہے۔ جیسا کہ مئی 2019 میں بیجنگ میں منعقدہ ایشیائی تہذیب ڈائیلاگ کانفرنس میں اتفاق رائے سے کہا گیا کہ ’’صرف مساوی مکالمے، تبادلے اور باہمی سیکھنے کے ذریعے مختلف تہذیبوں کے درمیان باہمی علم کے ذریعے دنیا کا روشن مستقبل ہو سکتا ہے، لیکن امریکی جو اصول مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ صرف ان کی نام نہاد مرضی ہی اعلیٰ معیار ہے جس کی پوری دنیا کو پابندی کرنی چاہیے اور صرف ان کا جمہوری نمونہ ہی عالمی قدر ہے جس پر تمام اقوام کو عمل کرنا چاہیے۔ اس بالادستی کی منطق کے مطابق امریکہ بار بار فوجی حملے کر چکا ہے اور فطری طور پر اسے بار بار فوجی شکست کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں!‘‘
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ عالمی طاقت کے عروج پر چڑھ گیا۔ امریکی معیشت ایک بار دنیا کے آدھے حصے پر مشتمل تھی۔ چوٹی کی طاقت نے امریکیوں کو دیوانگی کا وہم دیا ہے، جس سے وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کا نظام، ثقافت اور طرز زندگی دنیا کے لیے اعلیٰ ترین نمونے ہیں اور پوری دنیا کو انہیں قبول کرنا چاہیے۔ لیکن 9/11 کے واقعہ نے اس وہم کو ختم کر دیا کہ امریکہ دنیا پر حاوی ہونا چاہتا تھا اور امریکیوں نے افغانستان میں ویت نام کی ایک نئی جنگ میں سرمایہ کاری کی، لیکن بیس سال کی انتھک کوششوں کے بعد لوگ اب بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں کہ کیا امریکیوں کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ دوسری تہذیبوں کو طاقت کے ذریعے سرنگوں نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، جب امریکہ نے افغانستان میں ایک جمہوری قلعہ کے قیام کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی، دنیا کے دیگر حصے تیزی سے ترقی حاصل کر رہے تھے۔ جب امریکی فوجیں افغانستان سے نکلنا شروع ہوئیں تو ان کے سامنے کی دنیا بھی بدل گئی ہے اور امریکہ کی طاقت بھی پہلے سے بہت کمزور ہو گئی ہے۔
اگر امریکی عوام واقعی میں انصاف پسند ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ نائن الیون کے حملوں سے لے کر افغانستان میں فوجیوں کے انخلا تک، امریکہ اپنی نااہلی کو ظاہر کرنے کی اصل وجہ دنیا کے ساتھ جو وہ سلوک کرتا ہے اس کی وجہ ہے۔ کوئی بھی دوسرے ممالک اور تہذیبوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہ سکتا ہے۔ دوسرے لوگوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔ مختلف ماڈلز سے نمٹنے کے دوران مساوات اور عدم مداخلت کے اصول اپنائے جائیں۔ یہ وہ نتیجہ ہے جو بنی نوع انسان نے دردناک تاریخی اسباق کے ذریعے نکالا ہے اور یہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں واضح طور پر بیان کردہ روح بھی ہے۔ اسی فریم ورک کے تحت دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑے ممالک کے درمیان امن کی بحالی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اگر امریکہ اب بھی بالادستی کی سوچ پر اصرار کرتا ہے کہ اس کا اپنا ماڈل ہی واحد آپشن ہے تو اس کا نیا نقصان ناگزیر ہوگا۔
حالیہ برسوں میں امریکہ نے چین کے خلاف محاذ آرائی کا عمل شروع کیا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ چین کا آمرانہ ماڈل مغربی جمہوریتوں کے لیے خطرہ ہے۔ ایسا کرنے سے دنیا مزید خطرناک ہو سکتی ہے اور پوری دنیا کی خوشحالی قربان ہو جائے گی۔ ہر تہذیب کی اپنی ترقی کی منطق ہوتی ہے اور بیرونی قوتوں کو مجبور کرنا صرف برے نتائج کا باعث بنے گا۔ اگر امریکہ اپنی متکبرانہ ذہنیت کو تبدیل نہیں کرتا اور ہمیشہ دشمن کے نقطہ نظر سے ایک مختلف ماڈل کو دیکھتا ہے تو اسے مزید دھچکے لگیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔