کورونا وائرس، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟ جانیں مختلف ’سازشی نظریات‘
کورونا وائرس کے سلسلے میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ 5 جی سے ایسی تابکاری لہریں نکلی تھیں جن سے لوگوں کا مدافعتی نظام کم زور پڑ گیا تھا اور اس طرح لوگ وائرس کا آسان ہدف بن گئے تھے۔
دنیا میں کورونا وائرس کی وَبا پھیلنے کے بعد سے اب تک میڈیا میں اس کی خبریں سب سے نمایاں انداز یا شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی جا رہی ہیں۔ کووِڈ-19 کی وَبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے دنیا کے ملکوں نے اپنے ہاں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا، اپنی بین الاقوامی سرحدیں بند کردیں اور فضائی کمپنیوں کو اپنی پروازیں بند کرنا پڑی ہیں۔ جنگوں یا وبائی امراض کے بحرانوں کے وقت سازشی نظریات بھی بڑی تیزی سے پھیلتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران میں تو سازشی نظریات وائرس ہی کی طرح پھیلتے رہے ہیں اور اب تک پھیلائے جا رہے ہیں۔
دنیا میں قریباً ایک صدی کے بعد صحت عامہ کے سب سے بڑے عالمی بحران کے دوران میں گزشتہ ایک سال میں غلط اطلاعات (مِس انفارمیشن) اور سازشی نظریات کی تشہیر کی گئی ہے۔ بالخصوص انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جھوٹی خبریں (فیک نیوز) پھیلائی گئی ہیں۔ ان سازشی نظریات میں سے ایک یہ تھا کہ نئے 5 جی وائرلیس براڈ بینڈ سے کورونا وائرس پھیلا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ اس وائرس کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر دنیا میں پھیلایا گیا تھا۔ دسمبر2019ء میں چین کے وسطی شہر ووہان میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد سے اب تک جو سازشی نظریات پھیلے یا پھیلائے گئے ہیں، ان کی مختصر تفصیل حسبِ ذیل ہے:
5 جی: وَبا پھیلانے کا بڑا ذریعہ
کورونا وائرس پھیلنے کی سب سے عجیب وضاحت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ وَبا 5 جی موبائل ٹیکنالوجی کے منظرعام پر آنے کے نتیجے میں پھیلی ہے۔ بعض لوگوں نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ کورونا وائرس کو اس لیے تخلیق کیا گیا تھا تاکہ 5 جی ٹیکنالوجی کو متعارف کراتے وقت لوگ اپنے گھروں ہی میں مقیّد رہیں۔ بعض دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ 5 جی سے ایسی تابکاری لہریں نکلی تھیں جن سے لوگوں کا مدافعتی نظام کم زور پڑ گیا تھا اور اس طرح وہ وائرس کا آسان ہدف بن گئے تھے جبکہ بعض نظریات دانوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ 5 جی ٹیکنالوجی براہِ راست وائرس کو منتقل کرنے کا سبب بنی ہے۔
سازشی نظریات دو واقعات کا باہم ناتا جوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں وقوعات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جونہی 5 جی نیٹ ورکس کو تیزی سے پھیلایا گیا تو عین اس وقت کورونا وائرس کی وبا بھی پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ یوگوو کیمبرج گلوبل ازم پراجیکٹ نے دنیا کے 25 ممالک میں قریباً 26 ہزار لوگوں سے سروے کیا تھا۔ ان میں سے ہر پانچویں جواب دہندہ کا تعلق ترکی، مصر، نائجیریا اور جنوبی افریقا سے تھا۔وہ سب اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ کورونا وائرس کی علامات کو 5 جی کے انسانی جسم پر براہ راست اثرات کے سبب مہمیز ملی تھی۔
اس نظریے کے ردعمل میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو یہ وضاحت کرنا پڑی تھی کہ کورونا وائرس موبائل نیٹ ورکس سے پھیلتا ہے اور نہ ان کے ذریعے سفرکرتا ہے۔ اس نے اس کے ثبوت میں یہ بھی کہا تھا کہ یہ ان ممالک میں بھی پھیلا ہے جہاں سرے سے 5 جی نیٹ ورکس موجود ہی نہیں۔ اس سازشی نظریے کو ان نمایاں شخصیات نے پھیلایا تھا جن کے سوشل میڈیا پر پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس کے ردعمل میں برطانیہ اور بعض دوسرے ممالک میں سیل فون کے ٹاوروں کو نذرآتش کر دیا گیا تھا۔
بل گیٹس پر الزام
سازشی نظریات دانوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ کورونا وائرس کی وَبا لوگوں کے جسموں میں ویکسین کے ذریعے ایک مائکروچپ داخل کرنے کے لیے پھیلائی گئی ہے اور جن لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی، ان کے جسموں میں اس طریقے سے ایک مائکروچپ بھی داخل کر دی جائے گی اور یوں اس کے ذریعے لوگوں کا بآسانی سراغ لگایا جاسکے گا۔ اس ضمن میں مائکروسوفٹ کے شریک بانی بل گیٹس پر الزام عاید کیا گیا تھا کہ وہ اس مائکرو چپ کو بنا رہے ہیں اور اس کے ذریعے ایک طرح سے دنیا بھر کی آبادی کو کنٹرول کیا جائے گا۔
بِل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا اور بل گیٹس بہ ذات خود اس نظریے کو ’’احمقانہ‘‘ اور ’’فضول‘‘ قرار دیا تھا۔ بل گیٹس کو عالمی ادارہ صحت کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی پر آواز اٹھانے پر بھی تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ ان پر 2015ء میں ٹیڈٹاک کی ایک ویڈیو کی وجہ سے بھی کڑی نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اس تقریر میں انھوں نے ایبولا کی طرح کی ایک اور وبا کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اس پر لوگوں نے یہ قیاس آرائی کی تھی کہ بل گیٹس ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے پیشگی آگاہ تھے۔
کورونا وائرس: ایک نیا حیاتیاتی ہتھیار
ایک مفروضہ یہ ہے کہ اس وائرس کا سرے سے کوئی فطری منبع نہیں ہے۔ آن لائن تھیورسٹوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کووِڈ-19 کو دراصل ایک اعلیٰ سطح کی حیاتیاتی لیبارٹری میں بنایا گیا تھا۔ اس ضمن میں چینی سائنس دانوں پر الزام عاید کیا گیا تھا کہ انھوں ہی نے اس وائرس کو ڈیزائن کیا اور جدید دور کے حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر پھیلایا تھا۔ یہ بڑا مہلک اور کارگر ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ پیو ریسرچ کے ایک مطالعہ کے مطابق ہر10 میں سے تین امریکی اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ کووِڈ-19 کو حادثاتی یا جان بوجھ کرلیبارٹری میں بنایا گیا تھا۔ مؤخرالذکر مفروضے پر زیادہ یقین کیا جاتا رہا ہے۔ بالخصوص 23 فی صد کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر پھیلایا گیا تھا۔ صرف چھے فی صد کا یہ خیال تھا کہ یہ حادثاتی طور پر پھیلا تھا۔ پیو ریسرچ نے یہ سروے وائرس کے عروج کے دنوں میں کیا تھا۔
امریکی فوج کووِڈ-19 کوچین میں لائی تھی؟
ووہان کی کسی لیبارٹری میں کورونا وائرس کی پیدائش سے متعلق سازشی نظریے کے ردعمل میں امریکی فوج کے بارے میں ایک مسابقتی سازشی نظریہ پھیلایا گیا تھا اور وہ یہ کہ امریکی فوج چین میں کورونا وائرس کو لے کر آئی تھی۔ اس کو ووہان میں چھوڑا گیا اور یہ وہاں سے پھر چین کے دوسرے علاقوں اور دنیا بھر میں پھیلا تھا۔ اس نظریے کو ابتدائی طور پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے پھیلایا تھا۔ انھوں نے تب ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ امریکی فوج ممکنہ طور پر اس وائرس کو ووہان میں لے کر آئی تھی۔ ان کے اس بیان کی چین میں خوب تشہیر کی گئی تھی اور پھر اس افواہ کو تقویت ملی تھی کہ امریکی فوج کے اہلکار اکتوبر 2019ء میں عالمی فوجی مشقوں میں شرکت کے لیے ووہان میں آمد کے وقت اس وائرس کو لے کر آئے تھے۔
کووِڈ-19: افسانہ نہیں حقیقت
پیشہ ور سازشی نظریات دانوں انفو وار کے دائیں بازو کے سازشی تھیورسٹ ایلکس جونز تو یہ کہتے ہیں کہ کووِڈ-19 کا درحقیقت کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اس کے بجائے انھوں نے یہ تھیوری پھیلائی ہے کہ وَبا تو محض حکومتوں کا ایک ہتھکنڈا ہے اور وہ اس کے ذریعے شہریوں کی آزادی چھیننا چاہتے ہیں۔ اس نظریے کی ابتدائی شکل میں یہ کہا گیا تھا کہ کورونا وائرس فلو سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔
(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔