رفح میں ایک اور قتل عام کی شروعات
تنظیم کا الزام ہے کہ رفح میں نسل کشی شروع ہو چکی ہے اور عوام کا دانہ پانی بند کر دیا گیا ہے۔ یہاں شہری فاقہ کشی کا شکار ہیں، جنہیں علاج کی ادنیٰ سہولت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’یورو میڈیٹیرنین، ہیومن رائٹس مانیٹر‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ کی پٹّی کے جنوب میں واقع شہر رفح پر اسرائیلی فوج کا حملہ شروع ہو چکا ہے۔ اس تنظیم کا الزام ہے کہ نسل کشی کا جرم شروع کر دیا گیا ہے رفح کے عوام کا دانہ پانی بند کر دیا گیا ہے اور شہری فاقہ کشی کا شکار ہیں، انھیں علاج کی ادنیٰ سہولت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ تنظیم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اس علاقے میں تقریباً 280 افراد کو شہید بھی کر دیا ہے۔ ان میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچّے شامل ہیں۔ شہر کی دو سو سے زیادہ رہائشی عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کے بعد بھی اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ تنظیم نے اس معاملے میں جنوبی افریقہ کے نقطہ نظر کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔
رفح میں اسرائیل کی تازہ جارحیت کے کیا نتائج بر آمد ہوں گے اس پر فی الحال قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ سوال بہرحال اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو نہ ماننے والے، عالمی برادری کی اپیلوں کو ٹھکرانے والے اور مظلوم فلسطینیوں کی گذشتہ کئی دہائیوں سے حق تلفی کرنے کے ساتھ انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنانے والے اسرائیل کے خلاف عالمی برادری کی فکر مندی کب کسی فیصلہ کن کارروائی کی شکل اختیار کرے گی؟ کیا ان حالات میں یہ ضروری نہیں ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل کی رکنیت ختم کرنے کے لیے کم از کم کوئی تجویز ہی پیش کرے؟ بین الاقوامی عدالت انصاف اپنے فیصلے کو موثر بنانے کے لیے عالمی برادری سے اس معاملے میں راست مداخلت کی اپیل کرے، یا پھر اسرائیل کو اسی کی زبان میں جواب دینے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے۔ ماضی میں اس طرح کے فیصلے کیے بھی گئے ہیں۔ امریکہ تو عراق، لیبیا، شام اور دیگر کئی ممالک میں ایسی فوجی کارروائیاں کر بھی چکا ہے کہ جن کے لیے ان ممالک کے حکمرانوں سے عالمی امن کو پیدا خطرے کا بہانہ بنایا گیا۔ بہرحال یہ ایک بہت جذباتی لیکن بڑی حد تک ماضی کے حقائق پر مبنی موقف ہے، اور سچ یہ ہے کہ اسرائیل کو مغرب نے جس ناز برداری کے ساتھ مسلم دنیا پر مسلط کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے اس طرح کی کسی کارروائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک مسلم ممالک کا تعلق ہے تو ان کی اکثریت کو امریکہ کی حاشیہ برداری سے فرصت ملے تب ہی وہ فلسطینیوں کے مفادات کے تعلق سے کسی سخت کارروائی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور فی الحال اس کی کوئی امید نہیں۔
اپنی جارحانہ کارروائیوں کے لیے اسرائیل حق دفاع کا جواز پیش کرتا رہا ہے، لیکن رفح میں اس کی تازہ جارحیت ایک مرتبہ پھر اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہے کہ اسرائیلی کارروائیاں نسل کشی کے ارادے سے کی جا رہی ہیں اور وہ فلسطینی مزاحمت کو طاقت کے زور پر ختم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی ایسی کارروائیوں کی دنیا مذمت تو کر رہی ہے لیکن اسے اس جارحیت سے باز رکھنے کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔ اس کا سبب کوئی خوف ہے یا منافقت یہ تو اسرائیل کی مذمت کرنے والے اور اسے جارحیت سے باز رہنے کی تاکید کرنے والے ممالک ہی بتا سکتے ہیں، لیکن اس کے تباہ کن نتائج بہرحال مظلوم فلسطینیوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں، اور یہ بات بھی طے ہے کہ اسرائیل کی جارحیت کو نہ روک پانے کی سزا کسی دوسرے ملک کو ملے یا نہ ملے لیکن امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں اسے فوجی اڈے فراہم کرانے والے مسلم ممالک کو کسی نہ کسی دن بھگتنی پڑے گی۔ اس لیے کہ فلسطین کے بعد اسرائیل کے لیے اگلا نشانہ مشرق وسطیٰ کے دیگر کئی ممالک ہی ہیں۔ ان ممالک میں سوائے ایران کے ایسا کوئی ملک نہیں کہ جو اپنی فوجی طاقت کے بل پر اسرائیل کے مقابلے پر کھڑا ہو سکے۔
بہرحال صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ رفح میں بھی قتل عام کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل ہی عالمی ادارہ صحت نے یہ وارننگ دی تھی کہ اگر رفح پر حملہ کیا گیا تو اس سے ناقابل تصور تباہی ہوگی لیکن اسرائیل کو ایسی کسی بھی تنبیہ سے ظاہر ہے کوئی مطلب نہیں۔
دوسری طرف جنگ بندی کے سلسلے میں پیرس تجاویز کو اسرائیل کے ذریعہ مسترد کر دیے جانے کے بعد اب جنگ بندی کے تعلق سے بھی بات چیت کا معاملہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔ حالانکہ فرانس کے صدر
ایمانوئیل میکرون نے بدھ کے روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے فون پر جو بات کی اس کے تعلق سے کہا یہ جا رہا ہے کہ میکرون کا لہجہ کافی سخت تھا اور انھوں نے نیتن یاہو سے صاف کہا کہ ”غزہ میں انسانی جانوں کا نقصان اور ہلاکتیں قابل برداشت نہیں ہیں۔ اس لیے جنگ کو لازماً روکا جائے۔“
لیکن اس بات کی امید بہرحال نہیں کہ نیتن یاہو فرانس کے صدر کی اس تنبیہ کا سنجیدگی سے نوٹس لیں گے۔ اس لیے کہ اسرائیل کو بخوبی معلوم ہے کہ فرانس یا پھر مغرب کا کوئی بھی ملک اسرائیلی جارحیت کو اپنے بیانوں میں خواہ کتنا ہی ناقابلِ برداشت قرار دیتا رہے لیکن اس کے پاس اسے بزدلی کے ساتھ برداشت کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ جنگ اس حد تک پھیلتی ہی نہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر اسرائیل کو شروع سے ہی قابو میں رکھا جاتا تو مشرق وسطیٰ کا یہ آتش فشاں جو ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کے مطالبے کو مسلسل رد کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے وہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔ میکرون کے نیتن یاہو کو کیے گئے فون کے تعلق سے فرانسیسی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صدر کا لہجہ نیتن یاہو سے فون پر بات کرتے وقت اس مرتبہ پہلے سے سخت تھا۔ انھوں نے یہ تنبیہ بھی کی رفح پر اسرائیل کا حملہ بڑی سطح کی انسانی تباہی کا سبب بنے گا اور اس سے خطے میں کشیدگی کا اضافہ ہوگا، و علاقائی امن کے لیے خطرہ بڑھیگا۔
فرانسیسی صدر کا یہ کہنا قطعی بجا ہے، لیکن اتنا ہی سچ یہ بھی ہے کہ خطے کو کشیدگی سے دوچار کرنے اور اسرائیلی جارحیت کو پالنے پوسنے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ ان مغربی ممالک کا بھی ہاتھ ہے یہاں یہ یاد دلانا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل فلسطین جنگ شروع ہونے کے بعد یہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس ہی تھے کہ جنھوں نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ اس لیے اگر آج اسرائیل غزہ یا اب رفح میں بھی قتل عام کی راہ پر چل پڑا ہے تو اس کے لیے امریکہ و برطانیہ کے ساتھ ساتھ فرانس بھی ذمہ دار ہے۔ بھلے ہی میکرون اسرائیل کے ذریعہ غزہ اور اب رفح میں کیے جا رہے قتل عام کو ”ناقابل برداشت“ قرار دیتے رہیں۔ میکرون کا اس تعلق سے یہ بھی کہنا ہے کہ، ”جنگ بندی کا معاہدہ ممکن بنانا چاہیے اور اب اس میں مزید تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔“ میکرون کے اس موقف کا خیر مقدم ہے، لیکن انھیں یا دیگر تمام ممالک کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صرف جنگ بندی کرا کے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا تصور بے معنی ہے۔ رفح پر اسرائیل کا تازہ حملہ اور قتل عام دراصل مسئلہ فلسطین کو دبا کر جنگ بندی تک محدود کرنے کی دانستہ کوششوں کا حصہ ہے، لیکن ایسی کسی بھی کوشش سے بے شمار قربانیاں دے چکے فلسطینیوں کی آواز کو قتل عام کے ذریعہ بھی دبانا اب ممکن نہیں۔ لہٰذا رفح اور غزہ کے قتل عام کو روکنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کا قیام بھی ضروری ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔