پاکستان کے انتخابی عمل میں آزادی اور شفافیت کی کمی پر امریکہ کو تشویش
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں رواں برس گزشتہ برسوں کے مقابلے میں سیاسی کریک ڈاؤن بہت زیادہ دیکھا گیا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل کے دوران آزادی کو جو چیلنجز درپیش ہیں اس پر اسے کافی تشویش ہے۔ اس کا کہنا ہے پاکستانیوں کو بغیر کسی خوف یا دھمکی کے منصفانہ انتخابات کے ذریعے لیڈر منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان میں جمعرات آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے عمل میں آزادی اور شفافیت کی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی عوام کو بلا خوف اور دھمکی کے اپنا رہنما منتخب کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایک نیوز بریفنگ کے دوران اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل کے دوران، ''ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ اس طرح سے ہو کہ اس میں اظہار رائے کی آزادی، لوگوں کے اجتماع اور انجمن کے احترام کے ساتھ ہی وسیع پیمانے پر عوام کی شرکت کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔''
امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان میں انتخابی عمل کے دوران ہونے والے تشدد کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''ہمیں میڈیا کی آزادی پر عائد پابندیوں پر تشویش ہے۔ ہمیں انٹرنیٹ سمیت اظہار رائے کی آزادی اور پرامن عوامی اجتماع اور انجمن سمیت ان بعض خلاف ورزیوں پر بھی تشویش ہے، جس کا ہم نے وہاں مشاہدہ کیا ہے۔'' ویدانت پٹیل نے مزید کہا کہ ''ہم پاکستان کے انتخابی عمل کی کافی باریک بینی سے نگرانی بھی کر رہے ہیں۔''
یہ بھی پڑھیں : پاکستان الیکشن: فیصلے کی گھڑی قریب آن پہنچی
شہریوں کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرتے انہوں نے زور دے کر کہا، ''پاکستانی عوام بغیر کسی خوف، تشدد یا دھمکی کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے اپنے مستقبل کے رہنماؤں کے انتخاب کے لیے اپنے بنیادی حق کو استعمال کرنے کی حقدار ہے۔ بالآخر پاکستانی عوام کو ہی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے انتخابی عمل سامنے آتا ہے امریکی محکمہ خارجہ کی اس پر نظر ہے اور یہ کہ امریکہ ایک ایسے ''جمہوری اور جامع عمل کی اہمیت پر زور دیتا ہے، جو بنیادی آزادیوں کا احترام کرتا ہو۔''
واضح رہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان جیل میں ہیں اور انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر بھی غیر اعلانیہ پابندی ہے اور ان کے جلسے جلوسوں کے خلاف پولیس کی کارروائیاں یہ ظاہر کرتی ہے کہ انہیں دوسری جماعتوں کی طرح کھل کر انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں رواں برس گزشتہ برسوں کے مقابلے میں سیاسی کریک ڈاؤن بہت زیادہ دیکھا گیا ہے۔
اس نے لکھا، ''جیسا کہ پاکستان جمعرات کو انتخابات کی طرف گامزن ہے، اس کی طاقتور فوج اپنے موجودہ دشمن کو سائیڈ لائن کرنے کے لیے ایک مانوس طریقہ کار کا استعمال کر رہی ہے۔ اس نے جرنیلوں سے ان بن کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو سن 2022 میں پہلے پارلیمان سے بے دخل کر دیا تھا اور اس کے بعد ہونے والے پہلے ہی قومی انتخابات سے قبل ہی ان کی پارٹی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔''
امریکی کانگریس کی معروف خاتون رکن الہان عمر نے بھی پاکستان میں جمہوری عمل پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا کہ ''جب اپوزیشن پارٹیوں میں سے ایک کو مجرم قرار دیا گیا ہو، تو ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔'' انہوں نے کہا، ''جب میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر گزشتہ نومبر میں پاکستان میں انسانی حقوق کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا، اس وقت سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ جب اپوزیشن پارٹیوں میں سے کسی ایک کو مجرم قرار دیا گیا ہو، تو آزاد اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔''
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اپیل
حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کے روز حقوق انسانی کی متعدد دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر پاکستان میں حکام سے ایک اپیل جاری کی گئی، جس میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ آئندہ انتخابات کے دوران ملک بھر کے تمام شہریوں کے لیے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن پلیٹ فارم تک بلا تعطل رسائی کی ضمانت فراہم کریں۔ یہ اپیل نگراں وزیر داخلہ گوہر اعجاز کے ایک بیان کے ردعمل میں سامنے آئی ہے، جس میں جمعرات کو ہونے والے انتخابات کے دوران انٹرنیٹ میں رکاوٹ اور بندش کے امکان کو تسلیم کیا گیا ہے۔
انٹرنیٹ تک رسائی پر ممکنہ پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اظہار رائے کی آزادی کے حق کو برقرار رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیا کہ شہریوں کو آزادانہ طور پر آن لائن معلومات کا اشتراک کرنے اور ان تک رسائی حاصل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اس کے دیگر شراکت داروں نے اس بات پر زور دیا کہ انتخابات کے دوران انٹرنیٹ تک رسائی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ صرف جمہوری عمل کو نقصان پہنچائے گی بلکہ شہریوں کی اہم معلومات تک رسائی اور آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی صلاحیت میں بھی رکاوٹ بنے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔