پاکستان: انتخابی نتائج میں تاخیر اس بار پھر؟
سن دو ہزار اٹھارہ میں بھی یہی ہوا تھا اور لوگوں نے اعتراض کیا تھا اور اب پھر وہی کچھ ہو رہا ہے اور خصوصاﹰ پنجاب میں۔
دو روزقبل پاکستان میں ہوئے عام انتخابات کے نتائج اب تک مکمل طور پر جاری نہیں ہو سکے ہیں، جب کہ نتائج میں تاخیر کو ایک بار پھر ’الیکشن مینیج کرنے کی ایک کوشش‘ قرار دیا جا رہا ہے۔پاکستان میں عام انتخابات کی پولنگ بند ہوئے چوبیس گھنٹے سے زیادہ گزر چکے ہیں، تاہم ایک لمبے وقت تک الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ جانے پر رسائی حاصل نہیں ہوئی۔ کچھ اسی قسم کے مناظر سن 2018 انتخابات کے بعد بھی دکھائی دیے تھے، جہاں بعض حلقوں کے نتائج تین دن بعد سامنے آئے تھے۔
کراچی میں سندھ اسمبلی کے حقلہ 110 سے انتخابات میں حصہ لینے والے آزاد امیدوار اور سماجی کارکن جبران ناصر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ انتخابات کے نتائج کے اجراء میں تاخیر اسی وقت ہوتی ہے، جب انہیں 'مینیج‘ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ''انتہائی سادہ سی گنتی کی بات ہے۔ ڈبا کھولا، ووٹ نکالے اور اسے گن لیا۔ اس میں تو کوئی دیر والا کام نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ نے حساب کتاب بٹھانا ہو اور نتائج تبدیل کرنا ہوں، چیزیں تبھی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔‘‘
انتخابات کے موقع پر ملک کے بیشتر علاقوں میں موبائل فون سروس معطل رہی۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھی آن لائن احتجاج دیکھنے میں آیا جب کہ پاکستانی پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن میں اس کے خلاف شکایت بھی درج کروائی، تاہم ایسے موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں دیکھا گیا۔ نتائج کی تاخیر پر بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج دیکھا گیا ہے، تاہم ن لیگ کی جانب سے کسی قسم کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
کل صبح اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحب زادی نے لکھا کہ پاکستان مسلم لیگ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بہ طور ابھری ہے اور نواز شریف جلد ہی 'وکٹری اسپیچ‘ کے ذریعے اپنی فتح کا اعلان کریں گے۔
ن لیگ کے ایک رہنما نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں اس شکایت کا اظہار بھی کیا کہ ٹی وی چینلز پر چار پانچ فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کی بنیاد پر اعلانات شروع ہو گئے تھے، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ حتمی طور پر ن لیگ وفاق اور پنجاب اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے آگے ہے۔
جبران ناصر کا تاہم کہنا ہے کہ پنجاب میں انتخابی نتائج کی تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے چوٹی کے سیاست دان یہاں سے انتخابی معرکے میں شامل ہیں اور ایسے میں کسی کی شکست ایک اپ سیٹ کی طرح دیکھی جائے گی۔ جبران ناصر کے مطابق انتخابات میں ماضی میں تاخیر کی وجہ بھی الیکشنز کو مینیج کرنے کی روایت ہی رہی ہے۔
پاکستانی صحافی غریدہ فاروقی نے انتخابی نتائج کے اجراء میں تاخیر کو دو ہزار اٹھارہ سے مماثلت دی۔ ان کا کہنا تھا، ''دو ہزار اٹھارہ میں بھی اسی طرح سے تاخیر ہوئی۔ یہاں تک کے جو کراچی کے نتائج تھے، وہ چار روز بعد جاری ہوئے۔ ایسے میں دھاندلی کے شدید الزامات عائد کیے گئے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ تب یہ وجہ بتائی گئی تھی کہ آر ٹی ایس ایک نیا نظام ہے، جو 'بیٹھ گیا‘۔ تاہم اس وقت ای ایم ایس نظام (الیکشن مینیجمنٹ سسٹم) کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
’’میری دو روز قبل الیکشن کے خصوصی سیکرٹری ظفر حسین سے بات ہوئی تھی۔ میں نے ان سے دریافت کیا تھا کہ کہیں یہ نظام بھی بیٹھ تو نہیں جائے گا، تو انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ غریدہ فاروقی کے مطابق نتائج میں تاخیر کی وجہ سے کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ نتائج جاری کرنے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
صحافی عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا ، ''تب (سن دو ہزار اٹھارہ) میں بھی یہی ہوا تھا اور لوگوں نے اعتراض کیا تھا اور اب پھر وہی کچھ ہو رہا ہے اور خصوصاﹰ پنجاب میں۔ باقی جگہوں سے تو نتائج معمول کے مطابق ہی آ رہے ہیں، مگر جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے، اسے گزشتہ انتخابات ہی سے جوڑا جا رہا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔