غزہ میں جنگ کے سائے میں رمضان کا آغاز
حماس کا الزام ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے نہ تو جنگ کے خاتمے کی ضمانت دے رہا ہے اور نہ ہی اپنی فوج غزہ سے واپس بلانے کی۔
غزہ میں فلسطینی بھوک، تباہی اور جاری جنگ کے سائے میں مقدس مہینے رمضان کا آغاز کر رہے ہیں۔ رمضان سے قبل فائربندی کی کوششیں کامیاب نہیں ہو پائیں مگر اسرائیلی بیان کے مطابق بات چیت جاری ہے۔اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان فائربندی سے متعلق بات چیت بدستور جاری ہے۔ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب سفارتی حلقوں کے مطابق رمضان میں غزہ میں فائربندی کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔
جمعے کے روز موساد کے سربراہ نے اپنے امریکی ہم منصب ولیم برنس سے ملاقات کی۔ بتایا گیا ہے کہ ان دونوں عہدیداروں کی ملاقات میں یرغمال اسرائیلی شہریوں کی رہائی اور کسی ممکنہ فائربندی معاہدے سے متعلق گفتگو کی گئی۔ وزیراعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری کردہ موساد کے بیان میں کہا گیا ہے، ''ثالثوں کے ساتھ رابطے اور تعاون ہمہ وقت جاری ہے، تاکہ اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کی جائے اور اتفاق رائے تک پہنچا جائے۔‘‘
رمضان سے قبل کسی فائربندی معاہدے میں ناکامی کا الزام اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ حماس کے ایک ذریعے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حماس کا کوئی وفد اس ہفتے کے اختتام پر قاہرہ جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
واضح رہے کہ مصر، امریکہ اور قطر رواں برس جنوری سے اسرائیل اور حماس کے درمیان کسی فائربندی معاہدے کی کوشش میں ہیں اور تمام ممالک کی یہ مشترکہ کوشش تھی کے رواں سال ماہ رمضان سے پہلے یہ جنگ بندی کا معاہدہطے پاجائے تاہم ایسا ممکن نا ہوسکا۔ اس سے قبل آخری بار ایک ہفتے تکفائربندی نومبر میں ممکن ہوئی تھی، جس کے ذریعے حماس کے ہاتھوں یرغمالی بنائے گئے تقریباﹰ ڈھائی سو اسرائیلی شہریوں میں سے سو کو رہا کیا گیا تھا۔ اس کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید تین سو فلسطینی قیدیوں کو رہائی ملی تھی۔
حماس کا الزام ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے نہ تو جنگ کے خاتمے کی ضمانت دے رہا ہے اور نہ ہی اپنی فوج غزہ سے واپس بلانے کی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حماس کے مطالبات کو 'خام خیالی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ حماس کی مکمل شکست کے بعد ہی ختم ہو گی۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فلسطینی آزادی اور خودمختاری کے حصول تک اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
پانچ ماہ سے جاری اس جنگ میں غزہ میں حماس کے زیرنگرانی کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق ہلاکتوں کی مجموعی تعداداکتیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ ستر ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق ہزاروں افراد ممکنہ طور پر منہدم عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہو سکتے ہیں۔ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ایک دہشت گردانہ حملے میں تقریباﹰ بارہ سو اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے جب کہ عسکریت پسند دو سو ترپن شہریوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔
اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں ایک بڑیزمینی اور فضائی عسکری کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ شمال کی جانب سے شروع ہونے والی اس عسکری پیش قدمی کے بعد سے اب تک تقریبا تمام تر غزہ پٹی پر عسکری کارروائی شروع کی جا چکی ہے اور اب فقط جنوب میں مصری سرحد کے قریب واقع شہر رفح باقی ہے۔ اسی مقام پر ایک ملین سے زائد فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کا تاہم کہنا ہے کہ رفہ شہر پر بھی اسرائیلی فضائی حملوں کی شدت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ شب ایک بارہ منزلہ عمارت پر بمباری سے تیس منٹ قبل اس کے مکینوں کو عمارت خالی کرنے کا کہا گیا اور اس کے بعد اس عمارت پر بم گرائے گئے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ عمارت حماس کے زیراستعمال تھی اور اسرائیلیوں پر حملے کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔
حماس نے ہفتے کو چار اسرائیلی قیدیوں کے نام جاری کیے ہیں، جو حماس کے مطابق ایک اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے۔ تاہم اس سلسلے میں کوئی تفصیل یا شواہد جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اس بیان کو 'حماس کا نفسیاتی حربہ‘ قرار دیتے ہوئے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
غزہ میں شدید نوعیت کی اسرائیلی عسکری کارروائیوں کی وجہ سے ہیومینیٹیرین تباہی کی سی کیفیت ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق غزہ پٹی کا زیادہ تر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس علاقے کی زیادہ تر آبادی بے گھر ہے۔ اقوام متحدہ پہلے ہی غزہ پٹی میں قحط سے ہلاکتوں کے خدشات کا اظہار کر چکی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ غزہ میں بھوک اور پیاس سے جڑی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی تناظر میں ہفتے کو قبرص سے یورپی یونین کا ایک امدادی جہاز غزہ کی جانب روانہ ہو رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ رواں اختتام ہفتہ سے قبرص اور غزہ کے درمیان ایک امدادی راہ داری فعال ہو جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔