برلن میں ہزارہا شہریوں کا دائیں بازو کے انتہا پسندی خلاف احتجاجی مظاہرہ

جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف اس مظاہرے کا اہتمام بہت سی سیاسی، سماجی اور فلاحی تنظیموں کے اس اتحاد نے کیا تھا۔

برلن میں ہزارہا شہریوں کا دائیں بازو کے انتہا پسندی خلاف احتجاجی مظاہرہ
برلن میں ہزارہا شہریوں کا دائیں بازو کے انتہا پسندی خلاف احتجاجی مظاہرہ
user

Dw

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد شہریوں نے ملک میں دائیں بازو کی انتہا پسندانہ سیاست کے خلاف موجودہ ویک اینڈ پر بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرہ وسطی برلن میں جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے قریب کیا گیا۔اس مظاہرے کے دوران شرکاء وفاقی جرمن پارلیمان کی رائش ٹاگ کہلانے والی تاریخی عمارت کے پاس ہی نہیں بلکہ اس کے ارد گرد بھی جمع تھے۔ ہفتہ تین فروری کو تقریباﹰ پورا دن جاری رہنے والے اس احتجاج کے موقع پر برلن میں اوائل فروری کے عمومی موسمی حالات کے مطابق کافی سردی تھی اور بارش بھی ہوتی رہی تھی۔

جرمنی میں اسلام کی موجودگی اور مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) یا 'متبادل برائے جرمنی‘ اور اس طرح کی سوچ کے حامل دیگر چھوٹے بڑے گروپوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں پناہ کے لیے جرمنی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی مدد کرنے والی تنظیم 'پرو آزیول‘ کے ایک سرکردہ رکن طارق الاوس نے اس احتجاج کے دوران اپنے خطاب میں کہا، ''ہم نے اپنے مظاہرے کے دوران بنڈس ٹاگ کی عمارت کو چاروں طرف سے اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ ہم نے علامتی طور پر اس پارلیمان کے ارد گرد ایک زندہ (حفاظتی) فائر وال بنا دی ہے۔‘‘


جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف اس مظاہرے کا اہتمام بہت سی سیاسی، سماجی اور فلاحی تنظیموں کے اس اتحاد نے کیا تھا، جس کا نام ہے: ''ہاتھوں میں ہاتھ، یکجہتی کا مظاہرہ ابھی!‘‘ پرامن، قانون پسند اور جمہوریت دوست سماجی رویوں کے حامل مظاہرین کے اس احتجاج کے دوران وسطی برلن میں اس مظاہرے کے شرکاء ایک ایسی جگہ پر دور دور تک پھیلے ہوئے نظر آئے، جو وفاقی پارلیمانی عمارت کے سامنے تھی، لیکن وفاقی چانسلر کے دفتر، تاریخی برانڈن برگ گیٹ اور شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن سے زیادہ دور بھی نہیں تھی۔

منتظمین نے اس مظاہرے کے شرکاء کی تعداد تین لاکھ تک بتائی ہے، تاہم پولیس کے مطابق برلن میں اس احتجاج میں حصہ لینے والے شہریوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی۔ یہ احتجاج ملک میں ان عوامی مظاہروں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی تھا، جو گزشتہ چند ہفتوں سے جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندانہ سوچ کی مذمت میں مسلسل دیکھنے میں آ رہے ہیں۔


کل ہفتے کے روز ہی برلن کے علاوہ بھی جرمنی کے کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی ایسے ہی عوامی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق اس احتجاج کے لیے فرائی برگ اور ڈریسڈن جیسے شہروں میں تقریباﹰ 30 ہزار شہری سڑکوں پر نکلے جب کہ نیورمبرگ اور آؤگس برگ جیسے شہروں میں سے ہر ایک میں ایسے مظاہرین کی تعداد تقریباﹰ 25 ہزار تک رہی۔ اس کے علاوہ کئی دیگر شہروں میں بھی ایسے ہی بہت سے مظاہرے کیے گئے، جن میں شامل شہریوں کی تعداد 25 ہزار سے کم تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔