سیاسی حریفوں کے ساتھ اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عمران خان
اس وقت پی ٹی آئی کی زیادہ تر توجہ دوسری جماعتوں کے ساتھ بات کرنے کی بجائے ووٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے پر مرکوز رہی ہے۔
جیل میں مقید سابق وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے جبکہ گزشتہ ہفتے ہونے والے انتخابات میں ان کے آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔عمران خان کے وفادار آزاد امیدواروں کو شدید کریک ڈاؤن کا سامنا تھا۔ عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا اور ان کے امیدواروں کو بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ دریں اثناء جمعرات کو ہونے والے عام انتخابات میں عمران خان کے حامی تمام آزاد امیدواروں کو ملنے والے کل ووٹوں کی تعداد کسی بھی سیاسی پارٹی کو ملنے والے ووٹوں سے زیادہ تھے۔ حالیہ الیکشن میں سامنے آنے والے 'اپ سیٹس‘ کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) حکمران اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
عمران خان نے مسلم لیگ ن اور تیسرے نمبر پر آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) دونوں پر بدعنوانی کا الزام لگایا۔ اپنے ایک بیان میں پی ٹی آئی کے بانی نے کہا، ''ہم نہ تو مسلم لیگ ن کے ساتھ بیٹھیں گے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ ۔‘‘ عمران خان کا یہ بیان ان چند صحافیوں نے سنا جو اسلام آباد سے باہر اڈیالہ جیل میں ہونے والے مقدموں کی سماعت کی کارروائی کی کوریج کے لیے وہاں موجود تھے۔
یاد رہے کہ 8 فروری کو پاکستان میں ہونے والے الیکشن کے دن حکام کی جانب سے ملک کے موبائل فون نیٹ ورک کو بند کرنے اور گنتی میں 24 گھنٹے سے زیادہ وقت لگنے کے بعد ووٹوں میں دھاندلی اور نتائج میں ہیرا پھیری کے بڑے پیمانے پر الزامات سامنے آئے ہیں۔ عمران خان نے اڈیالہ جیل میں اپنے تازہ ترین بیانات دیتے ہوئے کہا، ''ہم انتخابی دھاندلی کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے جا رہے ہیں، اور ہم اس اتحاد پر بعد میں غور کریں گے۔‘‘ عمران خان کی طرف سے یہ بیانات پانچ دن قبل ہونے والے الیکشن کے بعد سے اب تک کے اولین بیانات ہیں۔
پارٹی کے بانی کے لیے حالیہ انتخابات ان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لیے ایک اعزاز کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے آزاد امیدواروں نے باوجود اس کے کہ اسے مؤثر طریقے سے ختم کرنے اور الیکشن پروسس سے بالکل الگ تھلگ کرنے کی تمام تر کوششیں کی گئیں، تاریخی کامیابیاں حاصل کیں۔
عمران خان 2022ء میں پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے معزول ہو گئے تھے۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کے سینیئر رہنماؤں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور کریک ڈاؤن میں پارٹی کو بیلٹ پیپرز پر آنے سے روک دیا گیا۔ تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
عمران خان کے وفادار آزاد امیدواروں نے اب بھی پاکستان کی پارلیمنٹ کے لیے 266 میں سے 90 کے قریب نشستیں حاصل کی ہیں، لیکن پی ٹی آئی کا اصرار ہے کہ دھاندلی کے بغیر ووٹوں کی گنتی ہوتی تو ان کی پارلیمان میں کہیں زیادہ نشستیں ہوتیں۔ اس وقت پی ٹی آئی کی زیادہ تر توجہ دوسری جماعتوں کے ساتھ بات کرنے کی بجائے ووٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے پر مرکوز رہی ہے۔
اس دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد کی تشکیل کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ یہ پارٹیاں دو سال قبل عمران خان کو ہٹانے کے لیے ایک وسیع اتحاد میں شامل ہوئی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، ''فیصلہ آنے کے بعد قوم کو آگاہ کر دیا جائے گا۔ ہمیں قومی مفاد میں آگے بڑھنا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔