فرانس: بالوں سے متعلق امتیازی سلوک ختم کرنے کا نیا قانون
اس بل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ غیر ضروری ہے، کیونکہ شکل کی بنیاد پر امتیازی سلوک جیسے برتاؤ پر قانون کے ذریعے پہلے ہی پابندی عائد ہے۔
فرانس میں بالوں سے متعلق نئے قانون سے بیشتر سیاہ فام خواتین کو فائدہ پہنچے گا، تاہم سینیٹ سے اس کی منظوری باقی ہے۔ امریکہ کی متعدد ریاستوں میں بھی بالوں سے متعلق امتیازی سلوک کو نسل پرستی کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔فرانس کی قومی پارلیمان کے ایوان زیریں نے جمعرات کے روز اس بل کو منظور کر لیا، جس کا مقصد بالوں اور بال رکھنے کے انداز کی بنیاد پر کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک پر پابندی عائد کرنا ہے۔
فرانسیسی کیریبیئن جزیرے گواڈیلوپ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاہ فام رکن پارلیمان اولیور سروا نے اس بل کا مسودہ تیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن افراد کو بالوں کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس قانون سے ان کی مدد کی جا سکے گی اور ان کی آواز بھی سنی جا سکے گی۔
یہ بھی پڑھیں : سجاتا آنندن: ایک صحافی، ایک محب وطن اور ایک مخلص دوست
فرانسیسی قانون ساز اولیور سروا نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ''یہاں (بالوں پر مبنی امتیازی سلوک سے) بہت سی تکالیف پائی جاتی ہیں اور ہمیں اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔'' سروا نے اس بل میں جو تجویز پیش کی ہیں اس میں سنہری بالوں، سرخ بالوں اور گنجے مردوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو بھی شامل کیا گیا۔
اس حوالے سے انہوں نے ایک امریکی تحقیق کی طرف اشارہ کیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس موضوع پر ایک جائزے میں شامل ہونے والی ایک چوتھائی سیاہ فام خواتین نے بتایا تھا کہ انہیں ملازمتوں کے لیے انٹرویو کے دوران صرف اس وجہ سے مسترد کر دیا گیا کہ انہوں نے اپنے بال ایک خاص انداز میں سنوار رکھے تھے۔
پارلیمانی بحث کے دوران ایک قانون ساز فانتا بیریٹے، جو اصل میں گنی سے ہیں، نے بتایا کہ انہیں بھی ماضی میں ملازمت کے لیے انٹرویوز کے دوران بالوں کو سیدھا کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس بل کو دو کے مقابلے میں 44 قانون سازوں نے منظور کیا، حالانکہ پارلیمنٹ کے بہت سے اراکین نے اس کی پہلی ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ یہ بل اب فرانسیسی سینیٹ میں جائے گا، جہاں قدامت پسند اراکین کو اکثریت حاصل ہے اور یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں اسے منظور کر لیا جائے گا یا پھر مسترد ہو جائے گا۔
بل کے مخالف کہتے ہیں کہ یہ غیر ضروری ہے
اس بل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ غیر ضروری ہے، کیونکہ شکل کی بنیاد پر امتیازی سلوک جیسے برتاؤ پر قانون کے ذریعے پہلے ہی پابندی عائد ہے۔ لیبر لاء کے ایک ماہر وکیل ایرک روچبلیو کا کہنا ہے، ''اس حوالے سے کوئی قانونی خلاء نہیں ہے۔'' وہ ایسے کسی بھی قانون کو ''علامتی'' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب عدالت میں امتیازی سلوک کو ثابت کرنے کی بات آتی ہے، تو اس سے کوئی زیادہ عملی مدد نہیں ملے گی۔
تقریباً 20 امریکی ریاستوں میں بھی اسی طرح کے قوانین موجود ہیں، جس کے تحت بالوں کے اسٹائل کے بنیاد امتیازی سلوک کو نسل پرستی کی ایک قسم بتایا گیا ہے۔ برطانیہ میں بھی مساوات اور انسانی حقوق سے متعلق کمیشن نے اسکولوں میں بالوں کے اسٹائل سے متعلق ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف رہنما اصول جاری کیے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔