سجاتا آنندن: ایک صحافی، ایک محب وطن اور ایک مخلص دوست
کانگریس کے تئیں سجاتا آنندن کے دل میں ایک نرم گوشہ تھا اور اس کو انھوں نے کبھی نہیں چھپایا، لیکن اس پارٹی میں موجود خود غرض و مطلبی سیاستدانوں کی تنقید کرنے سے بھی کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔
سجاتا آنندن (2024-1957) کے اچانک انتقال سے صحافتی طبقہ غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ سجاتا آنندن کو ممبئی میں ’ہندوستان ٹائمز‘ کا پالیٹیکل ایڈیٹر مقرر کرنے والے معروف کالم نویس اور صحافی ویر سنگھوی انھیں مہاراشٹر کے بہترین سیاسی مبصرین کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ممبئی پریس کلب کے زیر اہتمام منعقد تعزیتی اجلاس میں ویر سنگھوی اور صحافتی برادری کے دیگر لوگوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ’وہ بہت جلد چلی گئیں‘۔
شعبۂ سیاست سے منسلک صحافیوں کے دوستوں میں سیاسی لیڈران کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے، اور اس سے بھی کم تعداد بھروسہ مندوں کی ہوتی ہے۔ لیکن سجاتا آنندن مستثنیٰ تھیں۔ وہ گاندھیوں، ٹھاکروں، پواروں، گڈکریوں اور چوہانوں... سبھی کے درمیان اچھا محسوس کرتی تھیں۔ کانگریس کے تئیں ان کے دل میں ایک نرم گوشہ تھا اور اس کو انھوں نے کبھی نہیں چھپایا، لیکن اس پارٹی میں موجود خود غرض و مطلبی سیاستدانوں کی تنقید کرنے سے بھی کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سیاسی تقسیم کے باوجود سبھی لیڈروں نے ان پر کیوں اعتماد کیا اور ضرورت کے وقت ان سے مشورہ کیوں طلب کیا۔ بیک وقت وہ سبھی کے درمیان بے تکلف اور دانشمند تھیں۔
یہ بھی پڑھیں : فکر کرنے والا صحافی نہیں رہا...سید خرم رضا
سجاتا آنندن آر ایس ایس کی کھل کر تنقید کرتی تھیں اور کانگریس کی پُرجوش حامی تھیں۔ وہ زندہ دل شخصیت کی ملکہ تھیں اور ان کے پاس سبھی نظریات کے سیاسی رہنماؤں سے ہوئی ملاقاتوں و مباحثوں پر مشتمل کہانیوں کا گلدستہ تھا۔ ان رہنماؤں میں بال ٹھاکرے، شرد پوار، پرمود مہاجن، گوپی ناتھ منڈے اور نتن گڈکری وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے آنجہانی اندرا گاندھی سے اپنی ملاقات کے بارے میں بھی تذکرہ کیا، یہ ملاقات تب ہوئی تھی جب وہ جواں سال رپورٹر تھیں۔ سجاتا اس ملاقات کا ذکر ایک خاص گرمجوشی اور فخر کے ساتھ کرتی تھیں۔
سجاتا کا تعلق جنوبی ہند سے تھا لیکن انھوں نے ناگپور میں پرورش پائی۔ وہ دل سے مہاراشٹرین تھیں اور اکثر تمل و ملیالم کی اپنی محدود معلومات پر ہنستی تھیں۔ انھیں ہر مراٹھی شئے سے محبت تھی، چاہے زبان ہو، کھانا ہو، ثقافت ہو، یا پھر اصلاح پر مبنی روایات، جو کہ جیوتیبا پھولے اور امبیڈکر کی شناخت کہی جا سکتی ہے۔ سجاتا مہاراشٹر کی سیاست کا ایک تسلیم شدہ جز تھیں۔ سفارتکاروں، مدیروں، غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں اور ممبئی کا دورہ کرنے والے صحافیوں کے لیے وہ انتہائی اہمیت کی حامل ثابت ہوتی تھیں۔
شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے پر انھوں نے ایک کتاب ’سمرت‘ لکھی تھی، جس نے ان کی شناخت ریاست کی ایک تاریخ نویس کی شکل میں قائم کی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک کتاب ’مہاراشٹر میکسیمس‘ کے نام سے لکھی۔ ان کے کالم علمی اور تفریحی ہوتے تھے۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی سرگرم دکھائی دیتی تھیں جہاں ان کے مداح اور ناقدین دونوں کے تبصرے خوب دکھائی دیتے تھے۔ وہ ان کا جواب اپنے وقار کو قائم رکھتے ہوئے اور دورِ قدیم کے اخلاقی روایات کے مطابق دیتی تھیں۔
سیکولر اقدار کی حفاظت کرنے والی سجاتا ایک متقی ہندو تھیں۔ ایسی باوقار ہندو جس نے اپنے ایک کالم میں یہ لکھنے کی ہمت کی کہ وہ ایودھیا کے رام مندر میں کبھی پوجا نہیں کریں گی کیونکہ اس کی بنیادوں میں مذہبی تعصب اور بربریت موجود ہے۔ انھوں نے انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ ’’اس کا دیوتا ایسے مندر میں نہیں رہ سکتا۔‘‘
سجاتا کے ساتھ کام کرنے والے لوگ، ان کے ساتھی اور جونیئر سبھی ان کی مہربانیوں اور سخاوت کو یاد رکھیں گے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے وقت، پیشہ ورانہ نکات بھلائے نہیں جا سکتے۔ سجاتا اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں بیمار تھیں، لیکن اپنے کام کے تئیں وہ ہمیشہ مضبوط اور ذمہ دار رہیں۔ سجاتا ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔