غلط اور گمراہ کن معلومات سے خطرات والے ممالک میں بھارت سرفہرست

غلط معلومات اور گمراہ کن معلومات کو اگلے دو سالوں کے دوران دس طویل مدتی اور قلیل مدتی خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ تسلیم کیا گیا ہے۔

مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن سے خطرات والے ملکوں میں بھارت سرفہرست
مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن سے خطرات والے ملکوں میں بھارت سرفہرست
user

Dw

ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی گلوبل رسک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت ان ملکوں میں سرفہرست ہے جنہیں غلط اور گمراہ کن معلومات میں اضافے کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ اس سے سماجی خلیج بڑھنے اور پولرائزیشن کا سبب بننے کا خدشہ ہے۔یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب بھارت میں اگلے چند ماہ کے دوران عام انتخابات کے علاوہ کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف حکمراں جماعت ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی وقتی سیاسی فائدے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر "مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن" کا غیر معمولی استعمال کرتی ہیں۔

رپورٹ میں مختلف قلیل مدتی اور طویل مدتی خطرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں غلط معلومات اور گمراہ کن معلومات کو اگلے دو سالوں کے دوران دس طویل مدتی اور قلیل مدتی خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس سے سماج میں دراڑیں پڑنے اور پولرائزیشن کا سبب بننے کا خدشہ ہے۔


رپورٹ کے مطابق جن دیگر ملکوں کو ''مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن" کا خطرہ ہے ان میں پاکستان، سعودی عرب، امریکہ، فرانس، آئرلینڈ، چیک جمہوریہ اور ایل سیلواڈور شامل ہیں۔ رپورٹ، جو کہ عالمی خطرات کو سمجھنے کے حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی پہل کا حصہ ہے، کا مقصد بڑے خطرات کی نشاندہی کرنا اور ان سے نمٹنے کے ممکنہ طریقوں کا پتہ لگانا ہے۔یہ دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ ہزار ماہرین کی آراء کی بنیاد پر تیا ر کی گئی ہے۔

رپورٹ میں اقتصادی غیر یقینی کی صورتحال، سماجی پولرائزیشن اور پناہ گزینوں کے بحران کو کچھ دیگر اہم قلیل مدتی خطرات کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے جبکہ ماحولیاتی بحران کو سب سے اہم طویل مدتی خطرے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات غلط معلومات کو پھیلانے کے لیے ایک بہت بڑاذریعہ بنیں گے۔ خیال رہے کہ اگلے کچھ عرصے میں بھارت، انڈونیشیا، میکسیکو، پاکستان، برطانیہ اور امریکہ جیسے اہم ملکوں میں انتخابات ہونے والے ہیں، جن میں دنیا کی تقریباً تین ارب آبادی حصہ لے گی۔ رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کا وسیع پیمانے پر استعمال نئی حکومتوں کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ شہری بدامنی، احتجاج اور نفرت انگیز جرائم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

رپورٹ میں صورت حال کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ غلط معلومات نہ صرف لوگوں کی سیاسی وابستگیوں کو متاثر کرسکتی ہے بلکہ حقائق کے متعلق ان کی سمجھ کو بھی نقصان پہنچاسکتی ہے، جس سے سماجی ہم آہنگی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ سچائی کی تعریف متنازع ہوجائے گی اور کچھ رہنما، گروہ اور جماعتیں غلط بیانیوں کو درست میں تبدیل کرسکتی ہیں۔


رپورٹ میں بھارت کی بی جے پی حکومت کے دباو میں یو ٹیوب اور ٹوئٹر سے بی بی سی کے گجرات فسادات سے متعلق ڈاکیومنٹری کے لنک کو ہٹانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ اقدام غلط معلومات پھیلانے کے سیاسی ایجنڈے میں سوشل میڈیا کی شمولیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

رپورٹ میں غلط معلومات کے بڑھنے اور ممالک کے زوال پذیر پریس فریڈم انڈکس کے درمیان ممکنہ تعلق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ خیال رہے کہ پریس فریڈم انڈکس میں بھارت گزشتہ سال 180ملکوں میں 161ویں نمبر پر تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔