ہیٹی: جیل سے ہزاروں قیدیوں کے فرار ہونے کے بعد ایمرجنسی نافذ
اقوام متحدہ کے مطابق ہیٹی کی نیشنل پولیس کے پاس ملک کے 11 ملین سے زیادہ باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تقریباً صرف 9,000 ہی افسران ہیں۔
جیل توڑ کر چار ہزار قیدیوں کے فرار ہونے کے بعد دارالحکومت میں رات کے کرفیو کے ساتھ ہی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مسلح گروہوں نے وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوشش کے تحت اپنی پرتشدد کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ہیٹی کی حکومت نے ملک کی دو اہم جیلوں کو توڑ کر ہزاروں قیدیوں کے فرار ہونے کے پس منظر میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے سبب دارالحکومت اور اس کے آس پاس 72 گھنٹوں کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے رات کے دوران کرفیو کا اعلان کیا ہے۔
ہفتے کے اواخر میں مسلح گروہوں نے پورٹ او پرنس کی ایک بڑی جیل پر دھاوا بول دیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً چار ہزار قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ گینگ لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم ایریل ہنری کو طاقت کے ذریعے استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، جو فی الوقت ملک میں موجود نہیں ہیں۔ حکام نے تشدد کے بڑھتے خطرات کے پیش نظر آئندہ چند روز کے لیے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ رات کے دوران کرفیو بھی نافذ رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں : جاپان: آبادی کا بحران
اتوار کے روز ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ-او-پرنس میں اس وقت افراتفری پھیل گئی، جب ملک کے مرکزی قید خانے پر حملے کے دوران رابطوں میں خلل پڑا اور بیشتر قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جیل پر دھاوا بولنے والے گینگ کے لیڈر جمی شریزیئر ہیں، جو ماضی میں ایک پولیس افسر تھے۔ انہوں نے ہی ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والے حالیہ تشدد کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد وزیر اعظم ایریل ہنری کو ہٹانا ہے۔
البتہ جیل پر جب دھاوا بولا گیا توا اس دوران ہنری کینیا کا دورہ کر رہے تھے، تاکہ گینگ تشدد کا سامنا کرنے کے لیے سکیورٹی تعاون حاصل کیا جا سکے۔ وہ ملک واپس آنے والے تھے، تاہم وزیر اعظم کا ٹھکانہ ابھی تک معلوم نہیں ہے۔پورٹ او پرنس کے تقریباً 80 فیصد حصے پر اسی مسلح گروہ کو کنٹرول حاصل ہے، جو وزیر اعظم کو بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ ہیٹی کی پولیس یونین نے فوج سے درخواست کی تھی کہ وہ دارالحکومت کی مرکزی جیل کو مزید مضبوط بنانے میں مدد کرے، تاہم اس اقدام سے قبل ہی ہفتے کو دیر گئے اس پر دھاوا بول دیا گیا۔
ملک میں جاری تشدد کے سلسلے میں اواخر ہفتہ سب سے بڑی جیل پر حملہ ہوا، جس میں کم از کم وہ تین قیدی بھی ہلاک ہو گئے، جو بظاہر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اتوار کے روز بھی جیل کے دروازے کھلے تھے، جہاں کوئی سکیورٹی اہلکار نظر نہیں آ رہا تھا، جبکہ قیدیوں کے بہت سے اہل خانہ اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بھی وہاں پہنچ گئے۔
انسان حقوق کے گروپ آر این ڈی ڈی ایچ کے مطابق یہ جیل 700 قیدیوں کو رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی، جس میں گزشتہ سال فروری تک تقریباً 3,687 قیدی بند تھے۔ اطلاعات کے مطابق حملے کے بعد اب 100 سے بھی کم لوگ جیل میں باقی بچے ہیں۔ اتوار کے روز وزارت مواصلات نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ جیل پر حملہ ''ان لوگوں کو رہا کرنے کی کوشش ہے، جو قتل، اغوا اور دیگر سنگین جرائم کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے سبب قید تھے۔''
وزارت نے بہت سے قیدیوں کے فرار کو روکنے میں پولیس فورسز کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں بہت سے قیدیوں کے ساتھ ہی جیل کا عملہ بھی زخمی ہوا۔ پورٹ-او-پرنس کی جیل میں قیدگینگ کے وہ ارکان بھی شامل تھے جن پر سن 2021 میں صدر جوؤنیل موئس کے قتل کے سلسلے میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔
مسلح گروہوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں پُرتشدد مظاہروں کے دوران ایک جھڑپ کی وجہ سے شروع ہوئی تھیں، لیکن جب وزیر اعظم ہینری نے کینیا کا دورہ شروع کیا تو اس میں اضافہ ہوگیا۔ موئس کے قتل کے بعد اقتدار میں آنے والے ہنری نے پہلے کہا تھا کہ وہ فروری کے اوائل تک اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ تاہم بعد میں انہوں نے کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے، سب سے پہلے سکیورٹی کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہیٹی کی نیشنل پولیس کے پاس ملک کے 11 ملین سے زیادہ باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تقریباً صرف 9,000 ہی افسران ہیں۔ کئی مہینوں کی ناکام کوششوں کے بعد کینیا کی پولیسنگ مشن آپریشن کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہوا تھا۔ تاہم ہیٹی میں اقوام متحدہ اور مغربی قیادت کی تعیناتیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔