جاپان: آبادی کا بحران
آبادی کا بحران جاپان کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ نئی پیدائشوں کی تعداد 2023 میں لگاتار آٹھویں سال گر کر کم ترین سطح پر پہنچ گئی اور گزشتہ سال کے مقابلے میں 5.1 فیصد کم رہی
جاپان میں آبادی کے نئے اعداد و شمار سنگین صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ آبادی کے بحران سے نمٹنے کے لیے وہاں کے سیاست دان عہد کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ کم ہوتی ہوئی پیدائشوں اور سکڑتی ہوئی آبادی سے نمٹنے کے لیے ملک کے رہنما نے گزشتہ سال ’اب یا کبھی نہیں ‘ کی پالیسی پر زور دیا تھا ، اپنے پیشرو کے اس مسئلے کا مقابلہ کرنے کے عہد کے تقریباً آٹھ سال بعد ۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ ہفتے جاری کئے گئے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق، نئی پیدائشوں کی تعداد 2023 میں لگاتار آٹھویں سال گر کر کم ترین سطح پر پہنچ گئی اور گزشتہ سال کے مقابلے میں 5.1 فیصد کم رہی ۔ آبادی کا بحران جاپان کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے، جس میں متعدد حکومتیں گرتے ہوئے فرٹیلیٹی ریٹ یا شرح پیدائش (تولیدی عمر کی ہر ہزار خواتین میں ایک سال میں پیدائش کی کل تعداد) اور بوڑھوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے دوہری مارکو ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہر سال پیدا ہونے سے زیادہ لوگ مر رہے ہیں، جس کی وجہ سے آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس صورتحال سے جاپان کی افرادی قوت، معیشت، فلاحی نظام اور سماجی تانے بانے کے لیے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
جاپان کی گھٹتی ہوئی آبادی پر سی این این کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جاپان واحد ملک نہیں ہے جو اس مسئلے سے دوچار ہے۔ اس کے پڑوسی بشمول چین، ہانگ کانگ، تائیوان، جنوبی کوریا اور یورپی ممالک جیسے اسپین اور اٹلی کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ گزشتہ ہفتے جاپان کے ابتدائی اعداد و شمار جاری ہونے کے ایک دن بعد، جنوبی کوریا نے اپنے اعداد و شمار جاری کیے جو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی شرح پیدائش جو دنیا میں سب سے کم ہے2023 میں ایک بار پھر گر گئی۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک کے برعکس جن کی شرح پیدائش کم ہے، جیسے امریکہ، جاپان و دیگر مشرقی ایشیائی ممالک نے اپنی آبادی کو تقویت دینے کے لیے امیگریشن کا استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ لیکن جاپان کا بحران اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اسے بننے میں کئی دہائیاں لگی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا اثر اب واضح ہوا ہے اور مستقبل قریب میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اس لیے جاپان جو بھی راستہ اختیار کرے گا وہ ممکنہ طور پر دوسرے ممالک کے لیے ایک روڈ میپ پیش کرے گا جو اس بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
پرنسٹن یونیورسٹی میں سوشیالوجی اور ڈیموگرافی کے پروفیسر جیمز ریمو کے مطابق، جاپان کے آبادی کے بحران کے بارے میں سمجھنے والی پہلی بات یہ ہے کہ یہ صرف جزوی طور پر طرز عمل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس مسئلے کی ایک بہت بڑی وجہ جاپان کی تاریخ سے وابستہ ہے اور کس طرح وہ وہاں کی آبادی پر اثر انداز ہوئی ہے۔
آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے، اسے 2.1 کی شرح افزائش کی ضرورت ہے۔ ایک اعلی شرح بچوں اور نوجوانوں کے ایک بڑے تناسب کے ساتھ آبادی میں اضافہ کرتی ہے، جیسا کہ ہندوستان اور بہت سے افریقی ممالک میں دیکھا گیا ہے۔ لیکن جاپان میں یہ شرح 50 سالوں سے 2.1 سے نیچے ہے۔ 1973 کے بعد جب تیل کے عالمی بحران نے معیشتوں کو کساد بازاری میں دھکیل دیا تھا، یہ اس سطح سے نیچے گر گئی اور کبھی واپس اوپر نہیں آئی۔ 2023 میں جاپان کی شرح افزائش 1.3 تھی۔ یہ کئی سالوں سے نسبتاً ایک جیسی رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آج اوسطاً جاپانی عورت کے تقریباً اتنے ہی بچے ہیں جتنے پانچ یا دس سال پہلے تھے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ شرح افزائش لمبے عرصے سے مسلسل کم رہی ہے۔ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے اگر کسی ملک میں یہ شرح صرف چند سالوں کے لیے کم ہو جائے، لیکن جب یہ دہائیوں تک 2.1 سے کم رہتی ہے، تو اس کے نتیجے میں بوڑھوں کی نسبت بہت کم نوجوان ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر خواتین زیادہ بچے پیدا کرنے لگیں تو بھی بچوں کی تعداد میں کمی ہوتی رہے گی کیونکہ بچے پیدا کرنے کی عمر کی خواتین کی تعداد ہر سال کم ہوتی ہے۔ لہذا، یہاں تک کہ اگر جاپانی جوڑے اوسطاً تین بچے پیدا کرنے لگیں، تب بھی آبادی کم از کم کئی دہائیوں تک کم ہوتی رہے گی۔ اس پیشین گوئی کی بازگشت سرکاری ایوانوں میں بھی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سیکورٹی ریسرچ (آئی پی ایس ایس) کے مطابق، 2070 تک آبادی میں 30 فیصد کمی آئے گی۔ اس وقت، 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد 40 فیصد ہوگی۔
جاپان کی کم شرح پیدائش کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ریمو کے مطابق، اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ شادی نہیں کر رہے ہیں۔ سنگل والدین یا غیر شادی شدہ ماؤں سے پیدا ہونے والے بچے بہت سے مغربی ممالک کے مقابلے جاپان میں بہت کم ہیں۔ اس طرح، کم شادیوں کا مطلب ہے کم بچے۔ 2023 میں شادیوں کی تعداد میں تقریباً چھ فیصد کمی آئی - 90 سالوں میں پہلی بار یہ تعداد پانچ لاکھ سے نیچے گر گئی، جب کہ طلاقوں میں 2.6 فیصد اضافہ ہوا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان میں کم لوگوں کی شادی کا انتخاب کرنے کی وجوہات میں اعلیٰ زندگی کی لاگت، جمود کا شکار معیشت اور اجرت، محدود جگہ اور وہاں کام کرنے کا کلچر شامل ہے۔ 2022 کے آئی پی ایس ایس سروے کے مطابق، جاپانی لوگوں کی فیملی بنانے کی خواہش میں کافی کمی آئی ہے۔ تقریباً ایک تہائی بالغوں نے کہا کہ وہ رشتہ بنانا نہیں چاہتے۔ خواتین کے لیے صرف معاشی اخراجات ہی واحد وجہ نہیں ہوتے۔ جاپان ایک انتہائی پدرانہ معاشرہ ہے۔ حکومتی کوششوں کے باوجود کہ شوہروں کو مزید شامل کیا جائے، شادی شدہ خواتین سے اکثر توقع کی جاتی ہے کہ وہ نگہداشت کا کردار ادا کریں۔ اس طرح کے بہت سے مسائل دیگر مشرقی ایشیائی ممالک کو بھی پریشان کر رہے ہیں۔ چین میں شادی کی شرح میں کمی آئی ہے، جہاں خواتین پہلے سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر خود مختار ہیں۔ سروے کے مطابق جنوبی کوریا میں صرف ایک تہائی نوجوان شادی کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں۔
جاپان میں آبادی کے بحران کے اثرات واضح ہیں۔ صنعتی مزدوروں کی کمی محسوس ہو رہی ہیں، ملازمتیں بھرنا مشکل ہے کیونکہ کم نوجوان افرادی قوت میں داخل ہو رہے ہیں۔ کچھ دیہی برادریاں ختم ہو رہی ہیں، ایک گاؤں میں تو 25 سال گزر گئے لیکن کسی بچے کی پیدائش نہیں ہوئی ۔ شہروں میں بھی حالات بدل رہے ہیں اور بہت سی ملازمتوں پر تارکین وطن یا چین یا ویتنام جیسے ممالک کے نوجوان طلباء قبضہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے شادی اور بچے کی پیدائش کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف اقدامات کو فروغ دینے میں برسوں گزارے ہیں، جیسے بچوں کی دیکھ بھال کی خدمات کو بڑھانا یا ہاؤسنگ سبسڈی دینا۔ کچھ قصبے تو جوڑوں کو بچے پیدا کرنے کے لیے نقد رقم کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ لیکن اس بحران کے کم از کم کئی دہائیوں تک جاری رہنے کی توقع کے پیش نظر، جاپان کا پنشن، صحت کا نظام اور دیگر سماجی انفراسٹرکچر ممکنہ طور پر متاثر کرے گا، اورسکڑتی ہوئی افرادی قوت کے ساتھ اس کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔
امیگریشن ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ بڑی حد تک قدامت پسند ملک، جاپان خود کو نسلی طور پر یکساں سمجھتا ہے۔ یہ تاریخی طور پر غیر ملکی کارکنوں کو ضم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے بجائے اس نے غیر ملکی طلباء کو ملازمت دینے جیسے عارضی حل پر انحصار کیا ہے۔ ٹوکیو میں مقیم ایک تحقیقی تنظیم کی 2022 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاپان کو اپنے معاشی اہداف کے حصول کے لیے 2040 تک تقریباً چار گنا زیادہ غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت ہے۔ لہذا، حکام ویزا کے نئے زمروں اور ہنر مند کارکنوں کو اجازت دینے کے لیے تجاویز پر غور کر رہے ہیں۔ آئی پی ایس ایس نے پیشن گوئی کی ہے کہ 2070 تک آبادی میں کمی کی رفتار قدرے کم ہونے کی توقع ہے، جس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی نقل مکانی میں اضافہ ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔