ترکی: بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن جماعت کی بڑی کامیابی
سن 2019 کے بھی بلدیاتی انتخابات میں استنبول اور انقرہ میں حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی نے کامیابی حاصل کی تھی اور اس بار بھی تقریبا اسی طرح کے نتائج سامنے آئے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں ترک صدر طیب ایردوآن کی جماعت کو بڑا دھچکا لگا ہے، جبکہ حزب اختلاف نے استنبول اور انقرہ میں کامیابی حاصل کر لی۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ یہ وقت ہمت کے ساتھ خود کا احتساب کرنے کا ہے۔ترکی کی اہم اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے استنبول اور انقرہ جیسے اہم شہروں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابیوں کا دعویٰ کیا ہے۔
استنبول کے میئر اور حزب اختلاف کے رہنما اکرام امام اوغلو کا دعوی ہے کہ ترکی کے سب سے بڑے شہر میں ووٹوں کی گنتی اب مکمل ہو چکی ہے، جس کے مطابق ان کی جماعت کامیاب رہی ہے۔ اپوزیشن جماعت سی ایچ پی نے دارالحکومت انقرہ اور ترکی کے تیسرے بڑے شہر ازمیر کے ساتھ ہی جنوبی شہر انطالیہ میں بھی فتح کا دعویٰ کیا ہے۔ ابھی سرکاری سطح پر نتائج کی حتمی تصدیق نہیں ہوئی ہے، تاہم سرکاری میڈیا کے مطابق اپوزیشن نے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو نے نتائج سے متعلق جو خبریں شائع کی ہیں، اس کے مطابق حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی نے 81 شہروں میں ہونے والے میئر کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ صدر رجب طیب ایردوآن کی حکمراں جماعت 'جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی' (اے کے پی) کے لیے ان نتائج کو بڑا سیاسی دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
استنبول کے موجودہ میئر اکرام امام اوغلو نے اتوار کی رات کو سوشل میڈیا ایکس پر اپنے حامیوں سے کہا کہ ''آج کی رات، استنبول کے 16 ملین شہریوں نے ہمارے حریفوں اور صدر دونوں کے لیے یہ پیغام بھیجا ہے۔ استنبول آپ کا شکریہ۔''
اتوار کے روز ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں لاکھوں ترکوں نے میئرز اور ایڈمنسٹریٹرز کے انتخاب کے لیے اپنے ووٹ ڈالے۔ چونکہ ملک کے صدر رجب طیب ایردوآن کی حکمراں جماعت تمام اہم شہروں میں جیتنے کی کوشش کر رہی تھی، اس لیے اس انتخابات میں صدر کی جماعت کی گھٹتی مقبولیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ترک صدر کے لیے اصل میدانِ جنگ استنبول تھا، جہاں وہ پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ اسی شہر میں انہوں نے سن 1994 میں بطور میئر منتخب ہونے کے بعد اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
سی ایچ پی کے رہنما امام اغلو نے استنبول میں پارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں صحافیوں کو بتایا کہ ''ہم دس لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی برتری کے ساتھ پہلی پوزیشن پر ہیں۔۔۔۔ ہم نے الیکشن جیت لیا ہے۔'' انادولو ایجنسی کے مطابق اے کے پی کے امیدوار مراد خرم تقریباً 40 فیصد ہی ووٹ حاصل کیے۔ دارالحکومت انقرہ کے میئر منصور یاواس نے بھی اپنے اے کے پی کے حریف امیدوار کے مقابلے میں 25 پوائنٹس کے فرق کے ساتھ اپنی نشست برقرار رکھی ہے۔ سی ایچ پی کو ترکی کے تیسرے سب سے بڑے شہر ازمیر میں بھی سبقت حاصل تھی۔
سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے مطابق سی ایچ پی کے امیدواروں کے ملک کے متعدد صوبوں میں بھی سبقت حاصل ہے۔ مجموعی طور پر حزب اختلاف کو جو ووٹ حاصل ہوا ہے، اس کے مطابق اسے صدر ایردوآن کی حکمراں جماعت کے مقابلے میں قومی سطح پر ایک فیصد سے بھی زیادہ کی برتری حاصل ہے۔
'خود احتسابی' کی ضرورت ہے، ایردوآن
انقرہ میں اپنی پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں حامیوں سے بات کرتے ہوئے ترک صدر رجب میب ایردوآن نے اعتراف کیا کہ یہ نتیجہ ان کی اے کے پی کے لیے ایک دھچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''بدقسمتی سے ہم بلدیاتی انتخابی امتحان میں وہ نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے، جس کی ہم نے خواہش اور امید کی تھی۔'' ستر سالہ ایردوآن نے مزید کہا، ''ہم ایمانداری سے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔۔۔۔۔ اور ہمت سے خود کا محاسبہ کرنے کا مظاہرہ کریں گے۔''
ان انتخابات میں تقریباً 61 ملین افراد، جن میں سے ایک ملین سے زیادہ پہلی بار ووٹ دینے والے شامل ہیں، تمام میٹروپولیٹن میونسپلٹیز، ٹاؤن اور ڈسٹرکٹ میئر شپ کے ساتھ ساتھ محلے کی انتظامیہ کے لیے ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق تقریباً 76 فیصد افراد نے ان بلدیاتی انتخابات میں اپنی رائے دہی کا استعمال کیا۔
سن 2019 کے طرز پر ووٹ کا اعادہ
سن 2019 کے بھی بلدیاتی انتخابات میں استنبول اور انقرہ میں حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی نے کامیابی حاصل کی تھی اور اس بار بھی تقریبا اسی طرح کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں ہی صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ یہ میونسپل انتخابات ان کے آخری ہوں گے۔ وہ سن 2003 سے اقتدار میں ہیں، جب پہلی بار سن 2014 میں وہ پہلے وزیر اعظم اور پھر صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
سن 2017 میں آئینی ترمیم کے بعد وزارت عظمی کا عہدہ ختم کر دیا گیا تھا، جس سے ملک کے انتظامی اختیارات مکمل طور پر صدر کے پاس آ گئے۔ گزشتہ برس مئی میں ایردوآن صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹوں کی اکثریت سے محروم ہو گئے تھے، پھر رن آف میں کامیاب ہوئے جبکہ سن 2014 اور 2018 میں انہیں واضح کامیابی ملی تھی، اور رن آف کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔