زکوة: اسلام کا تیسرا اہم رکن

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اس شخص کا کوئی دین نہیں جو نماز نہیں پڑھتا اور اس شخص کی کوئی نماز نہیں جو زکوة نہیں دیتا

<div class="paragraphs"><p>زکوت کی علامتی تصویر</p></div>

زکوت کی علامتی تصویر

user

مدیحہ فصیح

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ذمے تین قسم کی عبادت فرض کی ہے۔ جانی عبادت، بدنی عبادت اور مالی عبادت۔ زکوة مالی عبادت کا نام ہے اور اسلام کے 5 بنیادی ارکان میں ایک اہم رکن ہے۔ زکوۃ کا لغوی معنی طہارت اور نمو (زیادتی) ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد 5 چیزوں پر ہے، جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق گواہی کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوة دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کا فریضہ ادا کرنا شامل ہیں۔

قرآن و احادیث میں زکوۃ ادا نہ کرنے کی مذمّت

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: اور خرابی ہے شرک والوں کو، وہ جو زکوۃ نہیں دیتے، اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے: اور وہ کہ جمع کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوشخبری سناؤ، دردناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے اُن کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں۔ یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا، اب چکھو مزہ اس جمع کرنے کا۔ (التوبۃ: ۳۴۔۳۵)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہر گز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں، بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا، قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔ اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا، اور اللہ تعالی تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ (آل عمران: ۱۸۰)


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دو چتّیاں ہوں گی۔ وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مال کی زکوۃ نہیں دی گئی، قیامت کے دن وہ گنجا سانپ ہوگا، مالک کو دوڑائے گا، وہ بھاگے گا یہاں تک کہ اپنی انگلیاں اُس کے منہ میں ڈال دے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پتّر بنائے جائیں گے ان پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور ان سے اس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار 50 ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اونٹ، گائے اور بکریوں کا جو مالک، ان کی زکوۃ ادا نہیں کرے گا، اسے قیامت کے دن ایک چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا، یہ چوپائے اسے اپنے سینگوں سے ماریں گے، اور اپنے کُھروں سے روندیں گے، جب اس پر ان میں سے آخری جانور گزر جائے گا، تو دوبارہ پہلے گزرنے والا جانور آ جائے گا، حتی کہ اس دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا جس کی مقدار 50 ہزار سال ہے، پھر اس شخص کو اس کا رستہ دکھایا جائے گا، وہ رستہ یا تو جنت ہوگا یا پھر دوزخ، اور جو خزانے کا مالک اپنے خزانے کی زکوۃ ادا نہیں کرے گا بروزِ قیامت اس کے لیے اس کے خزانے کو گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا۔ (صحیح البخاری)

سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فرماتے سنا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے 3 شخص جو جہنم میں داخل ہوں گے وہ یہ ہیں: (زبردستی) مُسَلّط ہونے والا امیر، (۲) وہ مالدار شخص جو اپنے مال کے بارے میں اللہ عزوجل کا حق ادا نہ کرتا ہو، (۳) متکبر فقیر۔ (مشکاۃ)


حضرت اُم المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوۃ کسی مال میں نہ ملے گی، مگر اُسے ہلاک کر دے گی (شعب الایمان)۔ بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ زکوۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اس حلال کو ہلاک کر دے گا اور امام احمد نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ مالدار شخص مالِ زکوۃ لے تو یہ مالِ زکوۃ اس کے مال کو ہلاک کر دے گا کہ زکوۃ تو فقیروں کے لیے ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں۔

حضرت بُریدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قوم زکوۃ نہ دے گی، اﷲ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔ (المعجم الاوسط)

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے، وہ زکوۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔ (الترغیب والترھیب)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو نماز کا ایک اجتماعی حکم دیا، ترجمہ: اور ہم نے تمام انبیاء کرام کو بذریعہ وحی حکم دیا تمام اچھے کاموں کے کرنے کا اور نماز پڑھنے کا اور زکوة دینے کا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرما رہے ہیں، ترجمہ: اے میرے پیارے پیغمبر اپنے اصحاب کے مال سے صدقہ (زکوة) وصول کیجیے اور ان کے مالوں کو پاک کر دیجیے۔ زکوة کا دوسرا معنی بڑھانا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے’ الزکوة قنطرة الاسلام‘ یعنی زکوة اسلام کا خزانہ ہے۔

اسلام میں زکوة ہر صاحب نصاب پر فرض ہے اور زکوة نہ دینے والوں کے لئے بڑی وعیدات ہیں۔ ترجمہ: وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کیے رکھتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے یعنی زکوة نہیں دیتے تو ان کو درد ناک عذاب کی وعید سنا دی تھی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور زکوة کی اہمیت کے پیش نظر ارشاد فرمایا، ترجمہ: اس شخص کا کوئی دین نہیں جو نماز نہیں پڑھتا اور اس شخص کی کوئی نماز نہیں جو زکوة نہیں دیتا۔


زکوة کا نصاب

اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی ہو یا اسی مالیت کے کرنسی نوٹ ہوں یا سامان تجارت ہو یا ضرورت سے زائد اتنی مالیت کا سامان موجود ہو تو اسے صاحب نصاب کہتے ہیں اس پر زکوة فرض ہو جائے گی اور سال گزرنے پر چالیسواں حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مستحقین پر خرچ کرنا فرض ہو جائے گا۔ زکوة اور صدقات واجبہ نافلہ فقراء ،مساکین، عاملین اور موٴلفة القلوب غلاموں کو آزادی حاصل کرنے ،مقروض لوگوں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلے ہوئے لوگوں اور مسافروں کے لئے ہے۔

زکوة کی ادائیگی

ہر صاحب نصاب شخص پر جب اس کے مال پر سال گزر جائے تو زکوة نکالنا فرض ہو جاتا ہے اب اگر نیت زکوة کی کر کے ایک ہی دفعہ نکال کر تقسیم کر دے تب بھی درست ہے رقم نکال کر علیحدہ ایک جگہ رکھ دی اور تھوڑی تھوڑی دیتا رہا تب بھی درست ہے اس کے لیے نیت زکوة کرنا ضروری ہوگا۔ اگر تمام زکوة نکال دی تھی اور تقسیم بھی کر دی تھی اب اس پر جب سال گزرے گا تو تب ادائیگی زکوة فرض ہوگی۔ ایک شخص زکوة دے چکا تھا اور اسے کوئی بہت اہم جگہ ضرورت والی نظر آ گئی تو اب وہ اگلے سال کی جو زکوة نکلنے کی توقع ہے پیشگی نیت کر کے اس وقت بھی دے سکتا ہے۔

ادائیگی زکوة کے بہت سے اسرار و مصالح ہیں زکوة سے تزکیہ نفس ہوتا ہے، زکوة دولت کی بیماریوں کا علاج ہے، زکوة کے بہت سے معاشرتی فائدے ہیں، زکوة گداگری کے خاتمہ کا بھی ذریعہ ہے، زکوة ایک بہترین معاشی محرک ہے، زکوة سے ذخیرہ اندوزی کا بھی خاتمہ ہوتا ہے اور زکوة غیر فطری معاشی عدم مساوات کا بھی خاتمہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں زکوة ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔