این ایس ڈی نے ’تیتو میر‘ کی نمائش کیوں منسوخ کی، کیا اُتپل دت کا لکھا یہ ڈرامہ حکومت مخالف ہے؟
ہندوستان میں اپنی نوعیت کے واحد ’نیشنل اسکول آف ڈرامہ‘ کا شمار اگرچہ دنیا کے چند سرکردہ تھیٹر اداروں میں ہوتا ہو لیکن اس خود مختار ادارے کی ساکھ مختلف وجوہات کی بناء پر چند برسوں میں داغدار ہوئی ہے۔
نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی) نے مجاہدِ آزادی سید میر نثار علی کی زندگی پر مبنی ڈرامہ ’تیتو میر‘ کی نمائش منسوخ کر دی۔ اُتپل دت کے لکھے اس بہترین ڈرامہ کی اسٹیجنگ ’بھارت رنگ مہوتسو‘ کے تحت کی جانی تھی اور این ایس ڈی کا یہ اقدام کسی کے گلے نہیں اتر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ این ایس ڈی کی جانب سے اس ڈرامہ کی نمائش اسی مہوتسو کے تحت کی جا چکی ہے اور اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس میں کیا ہے۔ کیا یہ ڈرامہ حکومت مخالف ہے؟ تو اس کا جواب ہے ہاں، یہ حکومت مخالفت تو ہے لیکن برطانوی حکومت (اس وقت کی) مخالف!
ڈرامہ ’تیتو میر‘ کو خود این ایس ڈی نے رنگ مہوتسو کے لئے منتخب کیا تھا اور اس کی نمائش دہلی کے کمانی آڈیٹوریم میں 22 فروری کو کی جانی تھی۔ نیشنل اسکول آف ڈرامہ نے بھارت رنگ مہوتسو کے لیے طے شدہ ڈرامے کی اسٹیجنگ کیوں منسوخ کی اس کی اصل وجہ تاحال کوئی نہیں بتا سکتا، تاہم تھیٹر کی دنیا سے وابستہ لوگ اسے صرف ’ایک اور بصری تبدیلی‘ قرار دیتے ہیں۔ این ایس ڈی گزشتہ چند سالوں سے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے تنازعہ میں گھرا رہا ہے۔ ہاں، تازہ ترین پیش رفت یقیناً تھیٹر کے فنکاروں، تھیٹر کے مفکرین اور دانشوروں کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے۔
تیتومیر بنگال کی جدوجہد آزادی کے گمنام ہیرو کی کہانی ہے جس نے 1831 کی مشہور نارکلبیریا بغاوت کی قیادت کی، جسے انگریزوں کے خلاف پہلی مسلح کسان بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ سید میر نثار علی عرف ’تیتو میر‘ 1786 میں بنگال کے ضلع چوبیس پرگنہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین سے بہت متاثر تھے۔ تیتو میر نے کلکتہ کے نزدیک نرکل باڑیہ نامی گاؤں کو اپنا مرکز بنایا اور جب وہاں پر خاصے مرید جمع ہو گئے تو انہوں نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ وہیں انہوں نے ایک قلعہ تعمیر کروایا، اسلحہ جمع کیا اور معصوم خان کو فوج کا سربراہ بنایا۔ تیتو میر نے مختلف ٹیکسوں بشمول ’داڑھی ٹیکس‘ کے خلاف مزاحمت شروع کی اور اسے ختم کرایا۔ بعد ازاں کئی موقعوں پر انگریزوں کو شکست دی۔ بالآخر انگریزوں نے 1831 میں جدید اسلحے سے لیس فوج بھیجی اور تیتو میر شہید ہو گئے۔
ایسی صورت حال میں تنازعہ فطری ہے۔ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ اتپل دت کا یہ ڈرامہ اس لیے منسوخ کر دیا گیا کہ اس میں بنگال کے کسانوں کی بغاوت کی بات کی گئی ہے؟ یا محض اس لیے کہ اس کا مرکزی کردار ایک مسلمان باغی نوجوان ہے؟ یا اس لیے کہ اسے ماضی میں بنگال میں اپنے مظاہروں کے دوران بی جے پی اور اس کی تنظیموں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انتخاب کے بعد یہ اطلاع این ایس ڈی ریگولیٹرز کے علم میں آئی؟
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب تنظیم کو خود این ایس ڈی نے اس ڈرامے کو اسٹیج کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ بھارت رنگ مہوتسو کے لیے ڈراموں کے انتخاب کے دو نظام ہیں، پہلا دلچسپی رکھنے والا تھیٹر ادارہ خود درخواست پیش کرتے اور دوسرا ڈرامہ اسکول یعنی این ایس ڈی اپنی طرف سے مدعو کرے۔ ڈرامے کے ڈائریکٹر جویراج کا کہنا ہے کہ ان کے ڈرامے کا انتخاب دوسرے نظام کے تحت کیا گیا تھا یعنی اسٹیجنگ کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ یاد رہے کہ اس بار بھارت رنگ مہوتسو کا تھیم 'آزادی کے گمنام ہیروز' ہیں اور تیتومیر اس تھیم پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔
’دی وائر‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈرامے کے ڈائریکٹر جویراج بھٹاچارجی کا کہنا ہے کہ ’’این ایس ڈی کی طرف سے مدعو کیے گئے نو ڈراموں میں سے پہلا ہونے کی وجہ سے ادارے کا اچانک اسٹیجنگ منسوخ کرنے کا فیصلہ حیران کن ہے۔ یہ مجھ پر واضح ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس ڈرامے کا مرکزی کردار، تیتومیر، جدوجہد آزادی کا گمنام ہیرو ہے لیکن چونکہ وہ ایک مسلمان ہے، اس لیے اس ڈرامے کا قومی اتحاد کا پیغام انہیں پسند نہیں آ رہا۔ اور اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکام، این ایس ڈی، وزارت ثقافت اور موجودہ حکومت ایسے ہیرو یا اس کے الفاظ کو باہر نہیں آنے دینا چاہتے، جس میں کوئی چھوٹا سا بھی پیغام موجود ہو۔‘‘ اس میں یہ سوال بھی شامل تھا ’’کیا یہ حکومت مخالفت ہے؟‘‘ میں نے ان سے کہا ’’یہ صرف انگریزوں کی حکومت کے خلاف ہے۔‘‘
نیشنل اسکول آف ڈرامہ شاید دنیا کے چند سرکردہ تھیٹر اداروں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے اور ہندوستان میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے، اس خود مختار ادارے کی ساکھ مختلف وجوہات کی بناء پر برسوں سے داغدار ہوتی رہی ہے۔ یہ 1959 میں سنگیت ناٹک اکادمی کے ایک جز کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور 1975 میں مکمل طور پر خود مختار ہو گیا۔ ابراہیم الکازی، امال الانہ، نصیر الدین شاہ، اوم پوری، شبانہ اعظمی، دیویندر راج انکور، رام گوپال بجاج سمیت اداکاروں اور ڈرامہ ہدایت کاروں کی ایک طویل اور بھرپور روایت کا شاہد رہا یہ ادارہ ایک کل وقتی ڈائریکٹر کی کمی سے دوچار ہے۔
یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں تقریباً 250 فنکاروں، ادیبوں اور سابق فیکلٹی ممبران نے این ایس ڈی کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر مبینہ طور پر مذہبی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا اور انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ادارے میں کل وقتی ڈائریکٹر کی تعیناتی کا مطالبہ بھی کافی عرصے سے زیر التوا ہے اور اسے اس کی تنزلی کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
معروف ڈرامہ اور ناول نگار رشی کیش سلبھ کا کہنا ہے کہ ’’تیتو میر ڈرامے کی منسوخی ایک ایسے رجحان کی طرف اشارہ ہے جو مستقبل میں تخلیقی دنیا کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔‘‘ سلبھ بھارت رنگ مہوتسو کے ڈرامہ انتخاب کے عمل میں الجھنے کا سوال بھی اٹھاتے ہیں اور یہاں ایک اہل اور تربیت یافتہ تھیٹر ڈائریکٹر بنانے کی ضرورت کی وضاحت کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : آخر پاکستان میں یہ تباہی کیوں!... ظفر آغا
تاہم، مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق، این ایس ڈی کے ڈائریکٹر آر سی گوڑ نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور اس بات پر قائم ہیں کہ ڈرامے کی اسٹیجنگ صرف 'طریقہ کار وجوہات' کی وجہ سے روکی گئی ہے۔ لیکن یہ بات کسی کے گلے سے نہیں اتر رہی۔ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) کے قومی جنرل سکریٹری راکیش، اسے تھیٹر، ادب، آرٹ اور ثقافت کی خود مختاری کی توہین کے ساتھ غیر اخلاقی بھی قرار دیتے ہیں۔ اس معاملہ میں دہلی کی ’جن ناٹیہ منچ‘ کی صدر ملے شری ہاشمی کا یہ بیان اہم ہے کہ اگر این ایس ڈی کے ایک پروگرام بھارت رنگ مہوتسو کا تھیم آزادی کے گمنام ہیروز کی بات کرتا ہے تو تیتومیر اس پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ ’’کیا این ایس ڈی نہیں جانتا کہ تیتومیر ڈرامہ کیا ہے؟ یہ سوال پوچھنا ہی حماقت ہے! یہ ڈرامہ اور اس کا مرکزی کردار تیتومیر، دونوں اپنے آپ میں ایسے ہیں کہ آج کی نسل کو ان کے بارے میں جاننا چاہیے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔