آخر پاکستان میں یہ تباہی کیوں!... ظفر آغا
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تباہی سارے مسلم سماج کے لیے ایک سبق ہے۔ پاکستان ایک بار سنہ 1971 میں دو ٹکڑے ہو چکا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ایک بار پھر پاکستان ٹوٹ سکتا ہے
بجلی نہیں، پانی نہیں، پٹرول و ڈیزل نہیں، آٹا نہیں، چینی نہیں... اور غضب یہ کہ پیسہ بھی نہیں۔ یہ حال ہے محمد علی جناح کے خوابوں کے ’اسلامک ریپبلک آف پاکستان‘ کا۔ جی ہاں، مملکت خدا داد پاکستان کنگال ہو چکی ہے۔ ملک میں کھانے پینے کے لالے ہیں۔ بازار سے ضروری اشیا غائب ہیں، یا پھر اس قدر مہنگی ہیں کہ لوگ خرید نہیں سکتے۔ سنہ 1947 میں اپنے قیام کے بعد سے کوئی 75 برسوں میں پاکستان کی یہ گت بن گئی، جبکہ وہیں ہندوستان اسی مدت میں دنیا کا ایک اہم ملک بن چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تباہی سارے مسلم سماج کے لیے ایک سبق ہے۔ پاکستان ایک بار سنہ 1971 میں دو ٹکڑے ہو چکا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ایک بار پھر پاکستان ٹوٹ سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس جدید دور میں ملک مذہب کی بنیاد پر نہیں چلا کرتے۔ پاکستان نے اپنے قیام کے بعد ہی ملک کی بنیاد مذہب پر رکھی۔ ساتھ ہی وہاں کے نظام نے ہندوستان کے ساتھ نفرت کا جنون پیدا کیا۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں ملک دنیا کے جدید ترقی کے راستوں سے کٹتا چلا گیا، جبکہ ہندوستان نے اپنے کو جدیدیت کی بنیاد پر کھڑا کیا۔ دراصل بٹوارے سے قبل مسلم سماج کے ذہنوں میں دو ڈر سما گئے۔ پہلا تو یہ کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں زمیندارانہ نظام لوٹ جائے گا۔ دوسرا یہ کہ ہندو اکثریت والے ہندوستان میں مسلم مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ انہی خوف کو ہوا دے کر جناح اور مسلم لیگ نے پاکستان بنا لیا، کیونکہ انگریزوں نے بھی مسلم لیگ کو ہوا دی۔
بٹوارے کی آگ سے پیدا شدہ پاکستان کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ ملک کو جدید دنیا کی راہ پر چلاتا۔ آخر آزاد دوسرے ممالک نے اپنے لیے ترقی کی یہی راہ اختیرا کی تھی اور وہ آج کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ لیکن پاکستان اسی پرانے زمیندارانہ نظام پر قائم رہا۔ پہلے ہی سے پاکستان میں زمینداروں کا قبضہ تھا اور اس کے قیام کے بعد تو پاکستان پوری طرح زمینداروں کے قبضے میں چلا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں جلد ہی جمہوری نظام چرمرا گیا۔ سنہ 1960 کی دہائی آتے آتے پاکستانی نظام فوج کے قبضے میں چلا گیا، جو آج بھی پاکستان میں سب سے طاقتور ہے۔ اس طرح فوج اور زمینداروں نے ملک کو پہلے امریکہ کے ہاتھوں گروی کر دیا۔ وہ کولڈ وار کا دور تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان دنیا پر قبضے کی جنگ جاری تھی۔ اس دور میں پاکستان پوری طرح امریکہ کی گود میں بیٹھ گیا اور اس کے مفاد کا تحفظ کرتا رہا۔ امریکہ اس کے عوض پاکستان کی امداد کرتا رہا۔ پھر سنہ 1980 میں سوویت یونین نے اپنی فوج افغانستان میں بھیج دی۔ امریکہ نے سوویت یونین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان سے پاکستان کی سرحد ملنے کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کے حوالے اپنی ’پراکسی وار‘ ٹھیکے پر دے دی۔ ادھر جنرل ضیا الحق کو لگا کہ وہ اب امریکہ کے کاندھے پر سوار ہو کر ہندوستان سے سنہ 1971 کی جنگ کا بدلہ لے سکتے ہیں۔ چنانچہ جہاد کا نعرہ دے کر پاکستان نے کشمیر میں دہشت گردی کا کھیل شروع کر دیا۔
پاکستان کو یہ گمان تھا کہ دنیا کے حالات ہمیشہ یکساں رہیں گے اور امریکہ اس کو اپنی خدمات کا ہمیشہ ’بھاڑا‘ دیتا رہے گا۔ لیکن 1990 کی دہائی میں سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ دنیا بدل گئی۔ آخر افغانستان سے بھی امریکہ نے اپنی فوجیں ہٹا لیں۔ اب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں بچی۔ امریکی امداد کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ پاکستان نے اس طویل مدت میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ آہستہ آہستہ پاکستانی معیشت بد سے بدتر ہوتی گئی اور اب پاکستان کنگال ہو چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب پاکستان کرے تو کرے کیا! ایک ہی راستہ ہے کہ وہ جدید ترقی کی راہ اختیار کرے۔ مگر اس راہ میں فوج اور زمیندار دونوں ہی پاکستانی لابی کے ہاتھوں سے اقتدار نکل جائے گا۔ بھلا پاکستانی نظام اس کی اجازت کیسے دے گا۔ چنانچہ یہ ظاہر ہے کہ پاکستان کے حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ مہنگائی سے پریشان عوام سڑکوں پر ہوں گے۔ فوج ان کو کچلنے پر مجبور ہوگی۔ آخر حالات سری لنکا والے ہوں گے۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ پاکستان کے مخالفین پاکستان کے حالات کا فائدہ اٹھا کر اس کو توڑنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح پاکستان کے ایک بار پھر سے ٹوٹنے کے امکان بھی پیدا ہو جائیں گے۔
پاکستان کی نفرت کی سیاست نے پاکستان کا یہ حال کر دیا۔ اس سے ہندوستان کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہندوستان نے سنہ 1947 میں آزادی کے بعد جدید ترقی کی راہ اختیار کی اور ایک سیکولر ریاست قائم کر دنیا کا ایک اہم ملک بن گیا۔ لیکن بی جے پی کے راج میں ہندوستانی نظام بھی ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے میں لگ گیا ہے۔ یہ ہندوستان کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہندوستان کو ’ہندو پاکستان‘ بنانے میں کہیں وہی حال نہ ہو جائے جو ان دنوں پاکستان کا ہے!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Feb 2023, 10:40 AM