طنز و مزاح: آپ کی ’تپسیا‘ میں بہت کمی رہ گئی ’مہامانو‘!...وشنو ناگر

ایسا کوئی کام، ایسا کوئی کرتب نہیں جو آپ نے نہیں کیا۔ ہندوستان کا نجات دہندہ اور فاتح بننے کے لیے آپ نے کوئی ڈرامہ نہیں چھوڑا، کوئی چال ایسی نہیں جو آپ نے نہیں چلی

<div class="paragraphs"><p>تصویر: سوشل میڈیا</p></div>

تصویر: سوشل میڈیا

user

وشنو ناگر

کوئی بات نہیں مودی جی، ایسا ہو جاتا ہے۔ کیا ہے کہ ہندوستان میں چالاک ایک آپ اکیلے نہیں ہیں، عام لوگ بھی کم چالاک نہیں ہیں! یقیناً ان کے پاس ’انٹائر پولیٹیکل سائنس‘ کی ڈگری نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ وہ دنیا میں صرف آپ کے پاس ہے، مگر ان کے پاس بھی ذہانت ہے، سمجھداری ہے، اپنے مفادات کی سمجھ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ پچھلے دس سالوں سے ہندو-ہندو، مندر-مندر کا کھیل کس کے لیے کھیل رہے تھے! کس کا خزانہ بھر رہے تھے۔ وہ نہ کسان تھا، نہ مزدور تھا، اس لیے ان کے سامنے آپ نے بڑی-بڑی شیخیاں بگھاریں لیکن سب دھری رہ گئیں۔ چار سو پار تین سو پار بھی نہیں ہو پایا۔ آپ کے خوابوں اور خواہشوں کے قلعے زمیں بوس ہو گئے۔

یہ مان لو مودی جی، آپ کی یہ حالت کسی اور نے نہیں بلکہ اس ملک کے بایولوجیکل (حیاتیاتی) لوگوں نے کی ہے، جن کے سامنے آپ نان بایولوجیکل (غیر حیاتیاتی) ’خدا‘ بن کر ابھرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس عوام نے آپ کے اتحاد کو ہرایا نہیں تو جتایا بھی نہیں۔ جیت کر آپ ہار گئے اور آپ کے مخالفین ہار کر بھی جیت گئے! آپ بیچ میں لٹکتے رہ گئے۔ مضبوط سے مجبور ہو گئے۔ جو کسی کی نہیں سنتا تھا، صرف بولتا رہتا تھا، اسے اب سننا پڑے گا اور سننے کی عادت نہیں رہی!

رائے دہندگان نے آپ کو جس جگہ پہنچا دیا ہے، وہاں کون، کب، کس طرح آپ کے ساتھ کھیل کر جائے، کب آپ کا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے اور آپ کی ای ڈی - سی بی آئی دیکھتی رہ جائے، کچھ پتہ نہیں۔ آپ نے سارے کنٹریکٹ امبانی کو دے دیئے تھے مگر آپ جس پرماتما کا ذکر کرتے ہو، اس نے ہوشیاری کا کنٹریکٹ دوسروں کو بھی دے دیا ہے مودی جی!

ہاں، آپ نے جیتنے کے لیے جی جان لگا دی۔ کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ آدمی جس حد کے آگے کچھ کر نہیں سکتا، اس حد کو بھی آپ پار کر گئے۔ آپ نے اپنی ماں کو ماں ماننے تک سے انکار کر دیا۔ اس حد تک آج تک کوئی نہیں گیا تھا مگر آپ گئے۔ آپ کی ’تپسیا‘ میں بہت کمی رہ گئی ’مہامانو‘!

آپ نے بتایا کہ آپ ماں کے پیٹ سے نہیں پیدا ہوئے بلکہ خدا نے آپ کو کسی خاص مقصد کے تحت براہ راست زمین پر ٹپکایا ہے! مگر لوگ جان گئے کہ دراصل آپ کو ٹپکانے والے پرماتما اور کوئی نہیں، اڈانی اور امبانی ہیں!


آپ نے جو بھی کیا بہادری سے کیا۔ اس خوف کے بغیر کیا کہ آپ کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ آپ نے منگل سوتر، مجرا، بھینس سب کا کھیل کھیلا اور جی بھر کر کھیلا۔ تمسخر اڑا تو پرواہ نہیں کی۔ آپ نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو ’درانداز‘ بنا دیا۔ اس کا مذاق اڑا تو آپ نے سوچا کہ کوئی بات نہیں۔ ’مہان‘ لوگوں کا پہلے مذاق ہی اڑتا ہے، پھر سب انہیں ماننے لگتے ہیں۔

آپ نے ووٹوں کی خاطر دس-دس کیمروں کے ساتھ وویکانند شیلا پر ایک آنکھ کھول کر مراقبہ کیا۔ اس کا بھی بھر پور مذاق بنا۔ آپ گزشتہ دس سالوں میں مزاح کا سامان بنتے گئے۔ عورتیں بچے سب مزے لینے لگے۔ شک کرنے لگے کہ کیا یہی شخص ہمارا وزیر اعظم ہے؟ آپ نے خوب شور شرابے کے ساتھ رام مندر کی پران پرتشٹھا کروائی کہ بس ووٹ میری جھولی میں گرا۔ آپ نے اپنی شبیہ بنائی کہ آپ رام للا کی انگلی پکڑ کر انہیں رام مندر لائے ہیں۔ خود کو رام سے بڑا بتا کر آپ نے مودی بھکتوں کو بھی چڑھایا مگر آپ خوش ہوتے گئے۔ جو رام کو لائے ہیں، ہم ان کو لائیں گے کا نعرہ لگوا رہے تھے۔ مگر رام نے آپ کو ایودھیا تک میں ہروا دیا۔

کسانوں کے راستے میں آپ نے کانٹے بچھوائے۔ انہیں بدنام کرنے کے لیے کون سا راستہ، کون سی پگڈنڈی اور کون سی گلی آپ نے چھوڑی؟ آپ نے جہالت کو علم کی طرح پیش کیا۔ نالی کی گیس سے چائے بنانے کا طریقہ سکھایا۔ آپ نے روس-یوکرین جنگ ہی نہیں، اسرائیل-فلسطین جنگ تک رکوانے کا کریڈٹ لیا۔ آپ نے نہرو جی کو بونا (پستہ قد) اور خود کو ’مہامانو‘ بتایا۔ گاندھی جی کو کندھے پر بٹھا کر گوڈسے کی پوجا کروائی یعنی آپ نے خود کو بونا اور مضحکہ خیز ثابت کرنے کا ایک بھی موقع نہیں گنوایا! یہ آپ کی خوبی ہے!

راہل گاندھی کو پپو اور شہزادہ کہا۔ آپ کامیابی کے گھوڑے پر سوار تھے، جو چاہا کیا، جو چاہا کہا! مذہب کے نام پر نفرت بڑھانے کا آپ نے عالمی ریکارڈ بنایا۔ ذات کو ذیلی ذاتوں میں، ذیلی ذاتوں کو ذیلی-ذیلی ذاتوں میں تقسیم کیا۔ تین طلاق کے نام پر مسلم خواتین اور مسلم مردوں کو بانٹنے کی ایک مضحکہ خیز کوشش کی۔


آپ نے سرکاری پیسوں سے ’وِکست بھارت یاترا‘ گاؤں-گاؤں، گلی-گلی نکالی۔ یہ جھنجھنا پکڑایا مگر رائے دہندگان اب بچے نہیں رہے۔ آپ نے یہ تک نہیں سوچا کہ تب تک کون انتظار کرتا ہے۔ آپ خود بھی تب تک اس زمین کو زینت بخش پائیں گے یا نہیں، کیسے معلوم! آپ کو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ ہندوستان کی عوام اتنی بیوقوف نہیں ہے کہ وہ آپ کو 2047 تک برداشت کرتی رہے گی۔ آپ نے اپنی تصویروں سے پورے ہندوستان کو پاٹ دیا۔ گزشتہ 70 سالوں میں خود کا دیوانہ ایسا کوئی وزیر اعظم نہیں ہوا۔ موبائل کھولو تو آپ، اخبار ٹی وی کھولو تو آپ، ہر جگہ آپ ہی آپ-آپ ہی آپ۔ جی 20 ہوا تو آپ، بلڈوزر چلوایا تو اس کے پیچھے بھی آپ۔ اس کے باوجود گنگا ماں کی گود آئے اس بیٹے کو ریاست کی عوام نے زمین چٹا دی۔ پرماتما کے دوت (پیامبر) سے کہا کہ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں! ہم ہندوتوا کو بہت دیکھ چکے، جھیل چکے!

ایسا کوئی کام نہیں، ایسا کوئی کرتب نہیں جو آپ نے نہیں کیا۔ ہندوستان کا نجات دہندہ اور فاتح بننے کے لیے آپ نے کوئی ڈرامہ نہیں چھوڑا! کوئی چال ایسی نہیں ہے جو آپ نے نہیں چلی۔ کوئی ایسا اپوزیشن لیڈر نہیں جو آپ کے قدموں میں نہ آیا اور آپ نے اسے خالی چھوڑ دیا ہو! اور اب انہیں میں سے ایک کی پوجا کرنا پڑی! دو-دو وزرائے اعلیٰ کو آپ نے جیل بھیجوایا۔ دہلی فسادات کے نام پر آپ نے اپنے کس-کس فسادی کو نہیں بچایا اور کس-کس بے گناہ کو آپ نے جیل نہیں بھیجوایا؟ گجرات میں بھی آپ نے یہی کیا تھا اور ہندوستان کو بھی گجرات سمجھنے کی غلطی کر دی!

میڈیا کو اپنے قبضے میں لے کر آپ نے کتنا مودی-مودی کروایا۔ آپ نے چین کو سیکڑوں مربع کلومیٹر زمین سونپ کر کہا کہ آپ نے دنیا میں ہندوستان کا وقار بڑھایا ہے۔ آپ نے دن میں 6-6 بار اپنے کپڑے بدلے، ہر مندر کے آگے سر جھکایا۔

آپ نے ہر ذات، ہر مذہب، ہر ریاست، یہاں تک کہ ہر ضلع کے ساتھ بھی ’خصوصی تعلق‘ جوڑا۔ بس آپ کا اپنی بیوی سے، اپنے بہن بھائیوں سے کوئی تعلق نہیں رہا، بقیہ سب سے خصوصی تعلق رہا۔ آپ جذباتی ہیں، یہ دکھانے کے لیے غلام نبی آزاد کے راجیہ سبھا سے رخصت ہونے تک پر آنسو ڈھلکائے۔ آپ مذہبی بنے، آپ نے ایمبولینس کو راستہ دینے والا مہامانو بننے کی کوشش کی۔ کچھ نہیں چھوڑا، کچھ بھی نہیں۔ خود کو وزیر اعظم نہیں، چکرورتی سمراٹ سمجھا-سمجھایا پر ہوا کیا؟ ملا کیا؟

حضور! آپ کی مدح سرائی کہاں تک کروں؟ 2002 سے آپ کی یہ داستان شروع ہوتی ہے جو 2024 تک آ کر بھی نہیں رکتی۔ آپ کی مدح سرائی تو تلسی داس اور والمیکی تک نہیں کر پاتے، میں کیا ہوں؟ آپ کا ’بال چرتر‘ ( بچن کے کوائف) سور داس ہی لکھ سکتے تھے، مگر وہ ہیں نہیں، آپ کی تشریف آوری سے بہت پہلے چلے گئے۔ آپ کے دور کو بیان کرنے کے لیے کوئی غالب، کوئی میر چاہیے۔ وہ بھی ہو چکے، جا چکے۔ پرماتما سے کہئے کہ وہ اس کے لیے آپ سے معافی مانگ لے ورنہ اسے بھی آپ نہیں چھوڑیں گے۔ آپ مودی ہیں، مذاق نہیں!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔