دیوتاؤں کی سیاست! رام، ہنومان، کرشن اور شیو کے بعد گنیش پر بی جے پی کی نظر
رام، ہنومان، کرشن اور شیو کو اپنی سیاسی لڑائی لڑنے کے لیے مختص کرنے کے بعد، بی جے پی نے اپنی توجہ گنیش یا گنپتی پر مرکوز کر دی ہے، جنہیں ہندو عقیدہ میں سب سے مہربان دیوتا سمجھا جاتا ہے
ہندو عقیدے سے وابستہ دوسرے دیوتاؤں کے برعکس گنیش دیوتا کو لڑائیوں اور جنگوں کے لیے نہیں بلکہ انعامات فراہم کرنے کے لئے جانا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں بلکہ لڈو نظر آتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک؟ آخرکار، بی جے پی نے مریادا پرشوتم رام اور ہنومان کی تصویر یکسر بدل دی ہے۔
گجرات میں موجود ’اسٹیچو آف یونٹی‘ کی بلندی جہاں 597 فٹ ہے، وہیں اتر پردیش میں مریادا پرشوتم رام کا 725 فٹ بلند کانسے کا مجسمہ نصب کرنے کی تیار کی جا رہی ہے۔ کاشی کوریڈور اور شیو کا مسکن قرار دیئے جانے والے کیدارناتھ دھام کی تزئین و آرائش بھی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ’دیوتاؤں‘ کو استعمال کرنے کے منصوبے کا حصہ رہے ہیں۔
اس سال توجہ گنپتی پر مرکوز رکھی گئی۔ اس کے تحت بی جے پی نے گنپتی منڈلوں میں اپنے بینرز اور ہورڈنگز نصب کرنے کے لیے مہاراشٹر میں خوب کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ مغربی بنگال جیسے غیر متوقع مقامات پر بھی گنیش اتسو کی شروعات کر دی گئی، جہاں پارٹی نے پہلے رام نومی کا جشن بھی متعارف کرایا تھا۔
کرناٹک میں بی جے پی حکومت نے اس سال بنگلورو اور ہبلی کے عیدگاہ میدانوں میں گنیش پوجا کی اجازت لینےکے لیے کافی کوششیں کیں۔ سپریم کورٹ نے بنگلورو میں جمود کا حکم دے دیا، تاہم کرناٹک ہائی کورٹ نے ہبلی میں پوجا کرنے کی اجازت فراہم کر دی۔ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کرنے والی کرناٹک حکومت کا عیدگاہ پر گنیش اتسو منانے کے لئے کوشش کرنا سیاست پر مبنی اور ووٹ بینک کے لئے اٹھایا گیا اقدام نظر آتا ہے۔ جنوبی ریاستوں، بالخصوص تمل ناڈو میں سنگھ پریوار دیوتا شیو کے نام پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جے این یو کی وائس چانسلر کا بظاہر نامناسب تبصرہ کہ ’ہندو دیوتاؤں میں سے کوئی بھی برہمن نہیں ہے‘ اور ’شیو غالباً ایک چنڈال تھے، جو شمشان میں رہتے تھے‘، دلتوں تک ہندوؤں کی رسائی کے لئے ایک کوشش نظر آتی ہے۔
اس سال توجہ مہاراشٹر کے گنپتی پر مرکوز کی گئی، جہاں بی جے پی رہنماؤں نے منڈلوں میں بینرز اور ہورڈنگز لگانے میں 5000 سے دو لاکھ روپے تک خرچ کر دیئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ ان منڈلوں پر خرچ کیا گیا، جو شیوسینا کی طرف سے تیار کئے گئے تھے۔ اندازوں کے مطابق صرف ممبئی میں اس طرح کے سیاسی اشتہارات پر خرچ ہونے والی رقم 100 کروڑ روپے ہے۔ خیال رہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) نے شہر میں 2425 منڈلوں کو اجازت دی تھی۔
عوامی تقریبات مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثر لوگوں کی طرف سے گھروں میں منعقد کی گئی سادہ تقریبات کے بالکل برعکس تھیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں جوش و خروش کی جو کمی تھی اسے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کے ایک سوسائٹی سے دوسری سوسائٹی میں جانے کے تماشے سے دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
سیاسی تجزیہ کار ہیمنت دیسائی کہتے ہیں ’’تہوار مکمل طور پر سیاست زدہ ہو گیا ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ بالخصوص شیو سینا کے دھڑوں اور بی جے پی میں یہ ظاہر کرنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون کٹر ہندوتوا کا سب سے بڑا پیروکار ہے۔‘‘
سیاسی مبصر سریندر جونڈھالے کا بھی کہنا ہے کہ ممبئی نے پہلے کبھی بھی کسی وزیر اعلیٰ یا ان کے نائب کو شہر میں گھوم گھوم کر چھوٹے گھرانوں سمیت زیادہ سے زیادہ گنپتی منڈلوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ سب بی ایم سی انتخابات کے پیش نظر کیا گیا۔‘‘
بی ایم سی کا سالانہ بجٹ 45949 کروڑ روپے کا ہے، جو کئی چھوٹی ریاستوں کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ بی جے پی 2017 میں دیویندر فڈنویس کی حکومت میں ہونے اور سب کچھ کرنے کے باوجود اس وقت کے اپنے اتحادی کو شکست دینے اور بی ایم سی پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اس سال پارٹی ریاست میں دوبارہ اقتدار میں ہے اور بی ایم سی پر قبضہ کرنے کے لیے پرعزم ہے، جس پر 1992 اور 1997 کے درمیان پانچ سالہ مدت کو چھوڑ کر 1985 سے شیو سینا کا قبضہ ہے۔
اتحادی ہونے کے ناطے بی جے پی نے سینا کے ساتھ مشترکہ طور پر بی ایم سی پر کنٹرول حاصل کر لیا لیکن وہ یہاں کا نظام دیکھنے کے بجائے ہلچل مچانے میں مصروف ہے۔ تاہم، اس معاملہ میں ادھو ٹھاکرے کی قیادت والا شیو سینا کا دھڑا بھی پیچھے نہیں ہے۔ لاکھوں عقیدت مندوں اور شیو سینا کے سرکردہ لیڈروں نے ممبئی میں واقع پاریل-لال باغ پٹی کا دورہ کیا، جسے گنپتی تہوار کا مرکز کہا جاتا ہے۔
شیوسینا کے رکن اسمبلی اجے چودھری کا کہنا ہے کہ بی جے پی 'موقع پرست' ہے۔ انہوں نے کہا ’’وہ منڈلوں پر پیسہ پھینک رہی ہے کیونکہ ان کے پاس کافی دولت ہے لیکن تہوار اس طرح نہیں منائے جاتے۔ ان کے ذہن میں صرف بی ایم سی انتخابات ہیں۔ بی جے پی کے یہ سیاست دان انتخابات کے بعد نظر نہیں آئیں گے۔‘‘ سیاست دانوں کی ہندوتوا کی اس ہوڑ میں معصوم دیوتا گنیش کو ہر طرف سے کھینچا جا رہا ہے اور ایسا تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔