لسانیاتی تنوع کو خطرہ دراصل ملک کے لیے خطرہ ہے... جی این دیوی
ہمیں ہندی-ہندو ایک ثقافت جیسے بہکاوے سے محتاط رہنا ہوگا جو ہماری زندگی کو ہی نگل جانے کی فراق میں ہے۔
آزادی سے قبل کی شام، اپنے عظیم الشان سماجی و ثقافتی منظر نامہ اور معشی حالات کے باوجود سبھی ہندوستانیوں کے لیے قابل احترام جگہ بنانا ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے لیے ایک بڑا لیکن مخلصانہ سیاسی چیلنج تھا۔ ان کے پاس ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ انھیں ملک کو مزید تقسیم ہونے سے بچانے اور ’ریاستوں کی ایک یونین‘ کی شکل میں اس کی سالمیت کی حفاظت کرنی ہی تھی، جس کا آزادی کے بعد کی نسل کے لیے ایک فطری عمل مان بیٹھنا عام تھا۔ خوش قسمتی سے ان کے پاس (ہندوستان کے پاس)، کانگریس کے اندر اور اس کے باہر بھی ایسی دانشور شخصیتیں موجود تھیں جو ان معاملوں کو اپنے علم اور دور اندیشی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے اور ملک کی نوجوان جمہوریت کے واجب سوالوں سے ٹکرانے میں اہل تھیں۔ انہی پیچیدہ چیلنجز میں ایک سوال ’زبان‘ کا بھی تھا۔
دوسرے یوروپی ممالک کے برعکس ہندوستان کبھی ’یک لسانی‘ نہیں تھا۔ یہ زمین ہمیشہ، ہر تاریخی دور میں کثیر لسانی رہی ہے۔ ہندوستان کو یک لسانی نیشنلزم پر مجبور کرنے سے یقیناً اس کی تقسیم ہوتی، اور ملک کی تعمیر کے عمل کے نام پر یہ کسی بھی طرح کی لسانی شرپسندی کو تو اجازت دے نہیں سکتا تھا۔ اپنے خودی اور ہم سبھی کو ایک ساتھ باندھے رکھنے کے سیاسی مقاصد کے لیے اپنے لسانی تنوع اور خوشحالی کو پرورش دینا نہ صرف نازک بلکہ مشکل کوشش بھی تھی۔ ملک کے اتحاد کی حفاظت کرتے ہوئے ہندوستان کی کثیر لسانی آزادی بنائے رکھنے کے لیے یہ توازن آئین کے شیڈول اور کثیر لسانی ریاستوں سے حاصل کیا گیا تھا۔
26 نومبر 1949 کو جب دستور ساز اسمبلی نے ہندوستانی آئین کو پاس کیا، اس وقت آئین کے آٹھویں شیڈول میں 14 زبانیں لسٹیڈ (فہرست بند) تھیں۔ بولنے والوں کی آبادی کے لحاظ سے ان کی فہرست اس طرح تھی: ہندی، تیلگو، بنگالی، مراٹھی، تمل، اردو، گجرات، کنڑ، ملیالم، اڑیا، پنجابی، کشمیری، آسامیا اور سنسکرت۔ گزشتہ 55 سالوں میں آٹھویں شیڈول میں تین ترمیمات ہوئی ہیں اور موجودہ وقت میں اس میں 22 زبانیں درج ہیں۔
حیدر آباد اور پنجاب کی لسانی تحریک کے بعد ان کے جواب میں جزوی طور سے ریاستی تشکیل نو کمیشن کا قیام ہوا۔ لیکن یہ نئے ابھرتے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو متعارف کرنے کی ضرورت کا ثمرہ بھی تھا۔ کہنا نہ ہوگا کہ آندھرا، تمل ناڈو، پنجاب، مہاراشٹر اور کرناٹک کی لسانی تحریکوں کی نہ صرف ایک مضبوط جذباتی بنیاد تھی بلکہ انھیں وسیع عوامی حمایت بھی حاصل تھی۔
تاریخ کے اس دور میں ہمارے پاس قبائلی زبانوں میں ایسی تحریک کھڑی کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ وہ صلاحیت دہائیوں بعد آئی اور سنہ 2000 میں جھارکھنڈ-چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں کا وجود میں آنا اسی کا نتیجہ ہے۔ لسانی حکومتوں کی تشکیل دراصل ہندوستان کے کثیر لسانی وقار کا اعتراف تو تھا ہی، ان سبھی کو ’ریاستوں کی یونین‘ کے طور پر ہندوستانی نظریات کے تئیں عزائم بھی بنائے رکھنا تھا۔ اس نے وفاقی ملک کی شکل میں ہندوستان کے ہمارے نظریات کی بنیاد تیار کی۔
ماڈرنائزیشن اور نیشنلزم پر نہرو کی سمجھ کی چھاپ ان دونوں کارروائیوں میں صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم کی شکل میں اپنی مدت کار میں انھوں نے اس بات پر خاص دھیان رکھا کہ نوآبادیاتی دور کے مقابلے میں مردم شماری کی کوشش کہیں زیادہ وسیع اور مفید ہو سکے۔ اکثر بھلا دیا جاتا ہے کہ یہ واحد ہندوستان ہی تھا جس کی مردم شماری میں ہر مادری زبان کو شامل کیا گیا تھا، اور یہ کام 1961 میں نہرو کے وقت میں ہی ہوا تھا۔ اس سے پہلے یا بعد میں بھی کبھی کسی مردم شماری میں ہندوستان کا لسانی منظرنامہ اتنا وسیع اور شفافیت کے ساتھ پیش نہیں ہوا۔ 1961 کی مردم شماری میں ’مادری زبانوں‘ کی فہرست میں 1652 اندراج تھے۔
آزادی کے بعد سے ہندوستانیوں نے ہمارے لسانی تنوع کو ایک سماجی پیمانہ اور اس ملک کی ایک اہم خصوصیت کے طور پر قبول کیا ہے۔ شہریوں کی شکل میں ہم دیگر زبانوں کے تئیں اپنے عدم برداشت، اپنے احترام ظاہر کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑتے۔ 19ویں صدی میں جب یوروپ میں نیشنلزم کا طلوع ہو رہا تھا تو اسے ایک ’قومی زبان‘ کی طرح شہریت کی خصوصیت کے طور پر دیکھا گیا۔ حالانکہ یوروپی نیشنلزم کے نظریات سے متاثر ہندوستان کی جدوجہد آزادی کسی بھی طرح کی لسانی قدامت پرستی میں کبھی نہیں الجھی۔
1971 کی مردم شماری میں اس وقت کی حکومت نے صرف وہی زبانیں فہرست بند کرنے کا فیصلہ لیا جنھیں 10000 سے زیادہ لوگ بولتے تھے۔ اس فہرست میں 108 اندراج تھے اور 109ویں پر ’بقیہ سبھی‘ تھا۔ کٹ-آف اعداد و شمار کے اس پلیٹ فارم نے پہلے سے ہی حاشیے پر پڑی چھوٹی زبانوں کو الگ تھلگ کر دیا۔ دھیرے دھیرے وہ سیاسی منظرنامہ سے بھی غائب ہونے لگیں اور فطری طور سے اس کا اثر سماجی زندگی میں اس کے زوال کی شکل میں سامنے آیا اور یہ وہاں سے بھی ختم ہونے لگیں۔ مستقبل میں اس کا اثر ہونا ہی تھا، اور ان علاقوں میں جہاں حاشیے کی ہی زبانیں بولی جاتی ہیں، وہاں سے ویسے علاقوں کے لیے ہجرت شروع ہو گئی جہاں اصل دھارے کی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ یہ ہندوستان کے لسانی تنوع میں وسعت کے جذبہ کو ٹھیس پہنچانے والا تھا۔ پیپلز لنگوئسٹک سروے آف انڈیا کی رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ 50 سالوں کے دوران اندازاً 250 زبانیں ہمارے نقشے سے ہی غائب ہو گئی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ایسا لگتا ہے کہ ایک چوتھائی حصہ کہیں گم ہو گیا ہے۔
2018 میں جاری ہوئی گزشتہ مردم شماری (2011) کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستانی شہریوں نے اپنی مادری زبانوں کے طور پر 19569 نام دیے، جنھیں تکنیکی طور پر ’راء ریٹرن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے سے دستیاب علم لسانیات و سماجیات کی بنیاد پر افسران نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے 18200 کسی بھی معلوم ذرائع یا جانکاری سے ’مدلل طور پر‘ میل نہیں کھاتے۔ زبانوں کے نام کی شکل میں مجموعی طور پر 1369 نام یا ’لیبل‘ تکنیکی طور سے معلوم کی بنیاد پر منتخب کیے گئے تھے۔ چھوڑ دیے گئے ’راء ریٹرن‘ میں تقریباً 6 لاکھ کی لسانی شہریت کو ختم کر دیا گیا۔ انھیں غور و خوض کے لائق بھی نہیں سمجھا گیا۔
اس طرح منتخب کیے گئے 1369 ’مادری زبان‘ ناموں کے علاوہ بھی 1474 دیگر نام مادری زبان کے طور پر شامل تھے۔ انھیں جنرل لیبل ’دیگر‘ کے تحت رکھا گیا تھا، کیونکہ درجہ بندی نظام ان کے ذریعہ بولی جانے والی زبانوں کی شناخت نہیں کر سکتا تھا۔ خوش قسمتی سے 1369 کو مجموعی طور پر 121 ’گروپ لیبل‘ کے تحت ایک ساتھ رکھا گیا اور انھیں ملک کے سامنے ’زبان‘ کی شکل میں پیش کیا گیا۔ ان میں سے 22 زبانوں کو آئین کے 8ویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہے جنھیں مبینہ طور پر ’شیڈولڈ زبانیں‘ کہا جاتا ہے۔ بقیہ 99 کی ’غیر شیڈولڈ‘ زبانوں کی شکل میں تشریح کی گئی تھی۔
ان میں سے بیشتر گروپوں کو مجبور کیا گیا تھا۔ مثلاً ’ہندی‘ کے تحت تقریباً 50 دیگر زبانیں بھی تھیں۔ 50 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے ذریعہ بولی جانے والی اور اپنا خود کا سنیما، اسٹیج، ادب اور لغت والی بھوجپور کو ’ہندی‘ کی شکل میں ظاہر کیا گیا۔ راجستھان کی تقریباً 30 لاکھ آبادی کی اپنی زبانیں تھیں، لیکن ان کی مادری زبان کے نام پر بھی ہندی ہی ظاہر کی گئی۔ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں قبائلی کی پاوری اسی طرح ہندی سے جڑی تھی جیسے اتراکھنڈ کی کماؤنی۔ زمینی سچائی کے برعکس رپورٹ میں ظاہر کیا گیا کہ 528347193 (528 لاکھ سے زیادہ) لوگ اپنی مادری زبان کے طور پر ہندی بولتے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری سیاسی اسباب سے جس طرح ملتوی رکھی گئی ہے، اس سے کم از کم 2024 تک تو اس کے مکمل ہونے کے آثار نہیں ہی ہیں۔ 2031 تک بھی اسے اسی طرح کھینچ لیا جائے تو حیرانی نہیں ہوگی۔ مان لینا چاہیے کہ تب تک تو چھوٹی زبانوں کا ایک بہت بڑا حصہ، اور جس تنوع کی وہ نمائندگی کرتی ہیں، اس کا صفایہ ہی ہو چکا ہوگا!
تقریباً طے ہو چکا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ قبائلی اور خانہ بدوش ہی ہوں گے، جن کی تعداد کافی کم ہے۔ حالانکہ ایسے طبقات کی مجموعی تعداد جن کی زبانیں اگلی مردم شماری میں درجبھی نہیں ہوں گی، فکر پیدا کرنے کے لیے کافی بڑی ہیں۔ ظاہر ہے، ان طبقات کے لوگوں کو دیگر زبانوں، خاص طور سے ہندی کے تکنیکی اعداد و شمار میں شامل کر لیا جائے گا، کیونکہ قبائلی طبقات کا بڑا حصہ ہندی لسانی علاقوں کے حاشیے پر ہی تو رہتا ہے۔ آئین بھلے ہی اظہارِ رائے کی آزادی کو بنیادی حق کی شکل میں قبول کرتا ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا کہ زبان جو ہم انسانوں کے لیے اظہار کا پرائمری ذریعہ ہے، ’ہندی-ہندو راشٹرواد کی خدمت میں‘ ہندوستان میں قبائلیوں اور گھمنتو خانہ بدوش طبقہ کی اس سینکڑوں زبانوں کو آفیشیل ریکارڈ سے ہی ختم کر دیے جانے کا اندیشہ سامنے ہے۔ مغالطے میں نہ رہیں، ایک ’کثیر لسانی ملک والے ہندوستان‘ کا وہ عظیم نظریہ اب خطرے میں آ چکا ہے۔
(مضمون نگار جی این دیوی ماہر لسانیات اور ثقافتی کارکن ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔