پارلیمنٹ ہاؤس کے اوپر چڑھ کر چاروں سمت میں کس پر دہاڑ رہے یہ کھاتے پیتے شیر؟
غنیمت ہے کہ ان کے منھ میں ان کے شکار اور ان کے جسم سے بہتا خون نہیں ہے، اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ چاروں کھاتے پیتے تگڑے شیر چاروں سمت میں دہاڑ کس پر رہے ہیں اور وہ بھی نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے اوپر چڑھ کر؟
لوگ پوچھ رہے ہیں کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے اوپر نصب یہ چاروں شیر چاروں سمت میں دہاڑ کیوں رہے ہیں؟ کس پر دہاڑ رہے ہیں؟ اشوک استمبھ کے ڈھائی ہزار سال پرانے شیر تو پرسکون تھے! یہ دہاڑو کیوں ہیں؟ کوئی وجہ؟
اس نظام سے یہ کیا کوئی بھی سوال پوچھنا جرم ہے، لیکن اپوزیشن سے پوچھنا کارِ ثواب ہے۔ لیکن میں اپوزیشن کو یہ کارِ ثواب کیوں بٹورنے دوں؟ میں خود کیوں نہ بٹوروں؟ تو اس سوال کا جواب مجھے یہ ملا کہ ہم ڈھائی ہزار سال پرانے وقت میں نہیں ہیں (اس وقت گرانے کو مسجد نہیں تھی ورنہ ایک منٹ میں پہنچ جاتے) اور ہمارے راجہ اشوک نہیں ہیں۔ آج اپنے کو جو راجہ مانتا ہے، وہ اشوک کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ اس لیے یہ اشوک استمبھ نہیں ہے، یہ اس ’راجہ‘ کا بنوایا استمبھ ہے۔ آپ ہی سوچو، اس کے شیر پرسکون اور مطمئن کیسے ہو سکتے ہیں۔ وہ یہ ’داغ‘ اپنے سر پر کیوں لادیں؟ غنیمت ہے کہ ان کے منھ میں ان کے شکار اور ان کے جسم سے بہتا خون نہیں ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ چاروں کھاتے پیتے تگڑے شیر چاروں سمت میں دہاڑ کس پر رہے ہیں اور وہ بھی نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے اوپر چڑھ کر؟
اس کا جواب ویسے تو واضح ہے لیکن کوئی یہ الزام نہ لگائے کہ میں اس کا جواب دینے سے کترا رہا ہوں۔ تو جواب یہ ہے کہ دہاڑ رہے ہیں ہم پر، تم پر۔ ہماری سمجھ پر، ہماری عقل کی سطح پر کہ ہم نے 2014 میں جو غلطی کی، وہی 2019 میں بھی کی اور ان کو پورا یقین ہے کہ یہی ہم 2024 میں بھی کرنے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن سے پاک ہندوستان کی بھینٹ اس ملک کو دینے جا رہے ہیں۔ سب کچھ بہتر رہا تو 2024 میں پارلیمنٹ میں کوئی اِکا دُکا اپوزیشن رکن نظر آئے گا۔ اس لیے ہم ابھی سے دہاڑ رہے ہیں۔ ہم دہاڑ رہے ہیں کہ دیکھو، شیر جب تک پرسکون اور مطمئن رہا تو پارلیمنٹ کو اپوزیشن سے پاک کرنے کی کوئی سوچ بھی نہیں پایا۔ یہ ہم پتھر ہو چکے دہاڑتے شیروں کی جمہوریت ہے۔ اس میں کچھ بھی ممکن ہے۔
یہ شیر ہمارے راجہ ہیں لیکن ہیں تو پھر بھی شیر، اس لیے یہ پوری طرح اس کی مٹھی میں بھی نہیں ہیں۔ یہ دہاڑ کر اس ملک کی اکثریتوں کے بھی اکثریتی طبقہ کو متنبہ کر رہے ہیں کہ عقل کے مارو، تم اتنے گئے گزرے کب سے ہو گئے کہ ہمیں دہاڑنے یہاں آنا پڑا؟ تمھیں مسلمانوں کو ٹھیک کرنے کے نام پر اس فرضی راجہ نے مشن نفرت پر لگا دیا اور تم بھول گئے کہ اس کی آڑ میں تمھارے ہی خلاف سازش تیار کی جا رہی ہے؟ یہ نوٹ بندی کس کے حق میں تھی؟ تمھارے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف تھی؟ تب سے جو معیشت لگاتار گر رہی ہے، اس کی تکلیف کیا تنہا مسلمان برداشت کر رہے ہیں؟ اس ملک نے گزشتہ 45 سالوں میں کبھی ایسی بے روزگاری نہیں دیکھی، جیسی آج دیکھ رہا ہے۔ ابھی جون میں ہی 25 لاکھ لوگ ملازمت سے محروم ہو چکے ہیں۔ آگے بھی یہ اسی طرح ملازمتوں سے محروم ہوتے رہیں گے۔ اس کا اثر تو صرف مسلمانوں پر پڑ رہا ہے نہ؟ تم، تمھارا بیٹا-بیٹی تو بے روزگار نہیں ہوئے، نہ ہوں گے کبھی؟ کیوں؟ اور روپیہ، ڈالر کے مقابلے نیچے اور نیچے جا رہا ہے، اسے کون بھگتے گا؟ گزشتہ دس مہینوں سے غیر ملکی قرض بڑھتا جا رہا ہے، اس کی ادائیگی کیا امریکہ کرے گا؟ اور شمار کراؤں؟ چھوڑو!
یہ بھی پڑھیں : بی جے پی ہوا میں محل تعمیر کرنے کے نایاب فن میں ماہر: اکھلیش
اس اڈانی کو 2.20 کھرب ڈالر کا قرض کس حکومت نے دیا، جب کہ ہندوستان کا مجموعی فوریکس ایکسچینج 4.70 ڈالر بتایا جاتا ہے۔ اگر یہ بھی نیرو مودی، میہل چوکسی، وجئے مالیا کی راہ پر چل پڑا تو کیا تم خوشی مناؤ گے کیونکہ نقصان تو صرف مسلمانوں کا ہوگا؟ اعداد و شمار کے مطابق 21-2020 میں 97 فیصد لوگ پہلے کے مقابلے غریب ہوئے ہیں تو یہ تو سب مسلمان ہیں نہ؟ سبھی ہندو تو تین فیصد امیروں میں شامل ہیں نہ؟ وہ تو غریب ہو ہی نہیں سکتے؟ جن کی جھگی جھونپڑیاں اجاڑی جاتی ہیں، جن کے بچے مارے مارے پھرتے ہیں، ان میں کوئی ہندو تو نہیں ہوتا ہے نہ؟ تم تو بہت خوشحال ہو گئے ہو نہ، کیونکہ ملّوں کو ٹھیک کر دیا گیا ہے؟ ارے بھائی گردن ہلا کر ایک بار ہاں تو کہو، کہ یہ کام بھی تمھاری طرف سے میں کروں؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔