بیتے دنوں کی بات: تختی، تعلیم کے سفر میں اہم کردار
کمپیوٹر کے دور میں جب چیٹ جی پی ٹی آپ کا کام کرنے کے لئے تیار ہو اور آپ کے ذریعہ بولے ہوئے الفاظ تحریری شکل میں آپ کی کمپیوٹر اسکرین پر سامنے آ جائیں تو بے چاری تختی، قلم، دوات کو کون یاد کرے گا۔
ایک وقت تھا جب کئی کمپنیوں میں نوکری کے لئے انٹرویو میں صرف تحریر دیکھی جاتی تھی اور فیصلہ کر لیا جاتا تھا کہ امیدوار کو اپنی کمپنی میں رکھنا ہے یا نہیں۔ یعنی خوشخطی کی اپنی اہمیت ہوتی تھی کیونکہ کسی بھی شخص کی شخصیت کا اندازہ لگانے کے لئے اس کی تحریر کو کافی سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے استاذ کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے شاگردوں کی بہترین تحریر ہو، جس کے لئے وہ شاگردوں کو ڈانٹتے بھی تھے اور خوب پٹائی بھی کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : یادِ ماضی: روشنی کا سفر...خرم رضا
استاذ اور گھر والوں کی کوشش ہوتی تھی کہ بچوں کی تحریر اچھی کرنے کے لئے ان سے زیادہ سے زیادہ تختی پر مشق کرائیں۔ آج کے بچوں کے لئے تختی کا استعمال تو بہت دور کی بات ہے انہوں نے تو تختی دیکھی بھی نہیں ہوگی اور نئی نسل نے تو اس کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ تختی یعنی لکڑی یا تختے کا وہ ٹکڑا جو مستظیل یعنی ریکٹینگیولر شکل کا ہوتا تھا جس کو اوپر سے پکڑنے کے لئے ایک ہتھا یا دستا ہوتا تھا۔ تختی پر ہی اسکول میں بھی کام کیا جاتا تھا اور گھر کے کام یعنی ہوم ورک کے لئے بھی تختی ہی بچوں کی کاپی اور سلیٹ ہوتی تھی۔
تختی کو اسکول اور گھر کے کام کے استعمال کے لئے اس کو تیار کرنا پڑتا تھا یعنی اس کو دھو کر اس پر ملتانی مٹی پھیر کر اس کو سوکھایا جاتا تھا جس کے بعد اس پر پینسل سے لائنیں کھینچ کر اس پر پینسل سے حروف بنائے جاتے تھے جن پر قلم کے ذریعہ لکھا جاتا تھا۔ قلم یا موجودہ دور کا پین کہئے۔ والدین کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے بچوں کے پاس بہترین قسم کا لکڑی کا قلم ہو اور آگے سے وہ بہترین انداز میں بنا ہو تاکہ ان کے بچے کی تحریر شاندار آئے۔ تختی کو پوتنا یعنی اس کو دھونا اور ملتانی مٹی کو تختی پر لگانے کے بعد سوکھانا ایک اہم کام ہوتا تھا۔ جو بچے جلدی گھر کا کام پورا کرنا چاہتے تھے وہ یہ کام جلدی کرتے تھے اور دھوپ میں کھڑے ہو کر ہوا میں تختی کو لہراکر گانا گنگناتے ہوئے اس کو سوکھاتے تھے۔ کچھ بچوں کی والدہ تختی پوت کر دیوار کے سہارے دھوپ کی طرف کرکے کھڑا کر دیتی تھیں تاکہ وہ جلدی سوکھ جائے۔
قلم کی اپنی خصوصیت تو ہوتی تھی لیکن اس کے ساتھ ایک دوات یعنی چھوٹی شیشے کی بوتل میں روشنائی ہوتی تھی۔ ہفتہ بھر کی روشنائی کے لئے اس دوات میں پانی میں ایک روشنائی کی ٹکیہ اور ایک کپڑے کی کترن ڈال دی جاتی تھی اور پھر اس میں قلم کو ڈبو کر لکھا جاتا تھا۔ کپڑے کی کترن روشنائی کو گھاڑا کرنے کے لئے دوات میں ڈالی جاتی تھی۔
کمپیوٹر کے اس دور میں جب چیٹ جی پی ٹی آپ کا کام کرنے کے لئے تیار ہو اور آپ کے ذریعہ بولے ہوئے الفاظ تحریری شکل میں آپ کی کمپیوٹر اسکرین پر سامنے آ جائیں تو بے چاری تختی، قلم اور دوات کو کون یاد کرے گا۔ ایک زمانہ تھا جب تختی کے بغیر تعلیم کا تصور نہیں تھا، اس تختی کا تعلیم اور انسانی شخصیت میں اہم کردار تھا آج وہ بیتے دنوں کی بات ہو گئی ہے۔ بہر حال وہ بھی کیا دن تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔