یادِ ماضی: روشنی کا سفر...خرم رضا
اس دور کے بچوں کے لئے لفظ لال ٹین ہی عجوبہ لگے گا لیکن لال ٹین ایک ایسی حقیقت ہے جس نے روشنی کے اس سفر میں اہم کردار ادا کیا ہے
اندھیرا ہونے لگا ہے کیا لال ٹین تیار ہو گئی، کیا ان میں تیل پورا ہے؟ یہ شام کے وہ جملے تھے جو ہر روز کانوں کو اسی طرح سنائی دیتے تھے جس طرح صبح سورج دستک دیتا ہے اور اگر سورج دستک نہیں دیتا تو یقیناً موسم بدلا ہوا ہے یعنی اگر شام کو یہ آواز سنائی نہیں دیتی تو مان لیجئے یا تو خاتون خانہ گھر سے باہر کسی تقریب میں گئی ہوئی ہیں یا پھر وہ علیل ہیں۔
لال ٹین یعنی ایسی روشنی کا ذریعہ جس کو ہوا بھی نہ بجھا سکے۔ ہندوستان میں تو کچھ لوگ اس سے صرف اس لئے واقف ہیں کہ یہ ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نشان ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب یہ امرا اور غربا کے گھروں میں روشنی کا واحد ذریعہ ہوتی تھی۔ اس کے بعد لیمپ، موم بتی، گیس کی لائٹ، چین کی بنی لائٹوں اور اب موبائل کی لائٹوں نے لے لی ہے۔ لیکن ایک وقت تھا کہ لال ٹین نہ صرف روشنی کا واحد ذریعہ ہوتی تھی بلکہ اس کی تعداد اور اس کو روشن کرنے کے لئے ملازمین سے بھی کسی کی مالی حیثیت کا اندازہ ہوتا تھا۔
ہیریئٹ ٹبمین ایک افریقی امریکی خاتون تھیں جو غلاموں کے رواج کے خاتمہ کے لئے سرگرمی سے کام کرتی تھیں۔ خود غلامی سے فرار ہونے کے بعد انہوں نے تقریباً 70 غلاموں کو بچانے کے لیے تقریباً 13 مشن چلائے تھے۔ 1861 میں یعنی 18ویں صدی کے اواخر سے امریکی خانہ جنگی کے آغاز تک، ہیریئٹ ٹبمین غلاموں کو زیر زمین ریل روڈ کے ذریعے ان کو ان کی آزادی تک پہنچاتی تھیں اور اس خطرناک سفر کے دوران لال ٹین ان کی ایک ضرورت اور طاقتور علامت کے طور پر کام کرتی تھی۔ 1879 میں تھامس ایڈیسن کے لائٹ بلب ایجاد کرنے کے بعد روشنی کا تصور ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ اب لال ٹینیں تیل کے بجائے بلبوں پر چل سکتی تھیں اور اس کو عام طور پر استعمال میں بہت زیادہ محفوظ سمجھا جاتا تھا۔
لال ٹین جو ہم نے دیکھی اور استعمال کی ہے اس میں ایک موٹے کپڑے کی بتی جو لال ٹین میں نیچے بھرے مٹی کے تیل میں ڈوبی رہتی تھی۔ اسی تیل کی وجہ سے وہ جلتی رہتی تھی۔ ہوا کے ذریعہ یہ جلنا بند نہ کرے اور روشنی بھی دیتی رہے تو اس کے لئے ایک شیشے کا بڑا سا طے شدہ سائز کا فریم ہوتا تھا۔ بتی کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے یہ شیشے کا فریم جو لال ٹین کا حصہ ہوتا تھا واس کو ٹیڑھا کر دیا جاتا تھا۔ تیل ڈالنے کے لئے ایک بڑا سا سراخ ہوتا تھا جس پر گول ڈھکن ہوتا تھا، جس سے اسے کھولا اور بند کیا جاتا تھا۔ لال ٹین کو کمرے یا دالان میں لٹکانے اور پکڑنے کے لئے ایک موٹے لوہے کے تار کو بہت خوبصورتی سے موڑ کر اس میں پھنسا دیا جاتا تھا۔
بہر حال آج شادیوں میں خوبصورتی کے لئے جو لال ٹین سجائی جاتی ہیں وہ ضرورت کے لئے استعمال ہونے والی لال ٹینوں سے بہت جدا ہوتی ہیں جن کا بجلی کے اس چمچماتے دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج جب بجلی جلانے کے لئے سینسر آ گئے ہیں اس دور کے بچوں کے لئے لفظ لال ٹین ہی عجوبہ لگے گا لیکن لال ٹین ایک ایسی حقیقت ہے جس نے روشنی کے اس سفر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔