کھیل اور کھلاڑیوں کی عزت داؤ پر... سید خرم رضا
افسوس تو اس وقت ہوتا ہے کہ وہ کھلاڑی جو ملک کا نام روشن کرنے کے لیے اپنا دن رات ایک کر دیتے ہیں وہ خود کو حکومت کے ہاتھوں ٹھگا سا محسوس کرتے ہیں۔
ایک تقریب میں ہندوستانی فٹبال ٹیم کے کپتان اور بہترین اسٹرائکر سنیل چھیتری نے بتایا کہ کئی سالوں سے اس نے مصالحہ دار کھانا نہیں کھایا، صرف اُبلا ہوا ہی کھانا کھایا ہے۔ اس نے بتایا کہ یہی نہیں، جب وہ اپنے والدین کے پاس رہنے کے لئے جاتا ہے تو اس کے گھر والے بھی اس کی وجہ سے اُبلا ہوا کھانا ہی کھاتے ہیں تاکہ ان کا دل نہ ڈگمگائے۔ یہی وجہ سے کہ 37 سال میں بھی ان کی فٹ نس کم عمر نوجوانون سے بہت زیادہ بہتر ہے اور اسی لیے ان کے ذریعہ کیا گیا گول ہمارے کروڑوں ہندوستانیوں کے چہرے پر خوشیاں لا دیتا ہے۔
فٹبال ہی کیوں، کسی بھی کھیل کے کھلاڑی کو اسی طرح کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں جس کے بعد ہی وہ ہمارے ہر دلعزیز ترنگے کو پوڈیم پر لہراتے نظر آتے ہیں۔ سردیوں میں صبح کے پانچ بجے جب ہم لوگ اپنی رضائی اور لحاف کو چاروں طرف سے اس طرح دباتے ہیں کہ کہیں سے سردی اندر داخل نہ ہو جائے، ایسے میں ہمارے کھلاڑی اس سردی سے لڑتے ہوئے اپنے جنون کو پایۂ تکمیل تک لے جانے کے لئے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ جس وقت ان میں سے کچھ بچوں کی کامیابی قدم چومتی ہے تو ہندوستان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص کا خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا۔ وہ ان بچوں کی کامیابی میں اپنی اور ملک کی کامیابی دیکھتا ہے۔ اسی لیے کھلاڑی کو کسی بھی ملک کا بہترین سفیر کا کہا جاتا ہے۔
افسوس تو اس وقت ہوتا ہے کہ وہ کھلاڑی جو ملک کا نام روشن کرنے کے لیے اپنا دن رات ایک کر دیتے ہیں وہ خود کو حکومت کے ہاتھوں ٹھگا سا محسوس کرتے ہیں۔ آج ملک کے وہ پہلوان جنہونے اپنے کھیل کے جوہر سے ملک کا نام روشن کیا، ان کو گھر چھوڑ کر دہلی کے جنتر منتر کی سڑک پر سونا پڑا رہا ہے۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ کشتی فیڈریشن کے سربراہ کو ہٹا دیا جائے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ احتجاج کر رہے پہلوان کسی خاص کو موجودہ سربراہ کی جگہ نیا سربراہ نہیں بنوانا چاہتے۔ ان کا صرف اتنا مطالبہ ہے کہ موجودہ سربراہ کو ہٹایا جائے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
کشتی فیڈریشن کے سربراہ کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے اور وہ اس جماعت کے رکن پارلیمنٹ ہیں اس لئے حکمراں جماعت کی کوشش ہے کہ احتجاج کر رہے پہلوانوں کو غلط ثابت کر دیا جائے اور اپنے رکن پارلیمنٹ پر اٹھنے والی تمام انگلیوں کا رخ موڑ دیا جائے۔ اب ایک طبقہ کھلاڑیوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا ہے جس میں رکن پارلیمنٹ، اپنی وقت کی بہترین اتھلیٹ اور انڈین اولمپک ایسوسیشن کی سربراہ پی ٹی اوشا بھی پیش پیش ہیں جن کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کو کچھ ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ایک طبقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس احتجاج کے پیچھے اور ان کھلاڑیوں کے پیچھے حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کا بھی ہاتھ ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو سیاست کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا جبکہ اپنے پہلے احتجاج کے دوران کھلاڑیوں نے کسی بھی سیاست داں کو اپنے پاس نہیں آنے دیا تھا، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن یہ تو حکومت کہ ہاتھ میں ہے کہ ہندوستان کی کشتی فیڈریشن کے سربراہ کو وہ اہمیت دے یا ان پہلوانوں کو جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ کشتی فیڈریش کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا کر کسی ایک کو کارگزار سربراہ بنا کر ان کی سربراہی میں نئے سربراہ کا انتخاب کرا دیتے۔ اس سے حکومت سیاسی پارٹیوں کو سیاست کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی اور ملک کا نام روشن کرنے والے پہلوانوں کو بھی سڑکوں پر نہ سونا پڑتا۔
پارلیمنٹ میں اتنی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود حکمراں جماعت کسی ایک رکن کی مرضی کے آگے اتنی بے بس نظر آ رہی ہے۔ اس سے نہ صرف وزیر اعظم کی ساکھ پر اثر پڑتا ہے بلکہ حکومت پر بھی کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ کسانوں کے احتجاج کے دوران بھی حکومت نے ہر ممکن کوشش کی لیکن پھر بھی تینوں متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینا پڑا اور احتجاج کر رہے ان پہلوانوں کے آگے بھی ابھی تو حکومت کسی حد تک جھک ہی گئی ہے، کیونکہ کشتی فیڈریشن کے سربراہ کے خلاف ایف آئی آر تو درج ہو گئی ہے۔ حکومت کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ پہلوان اپنی رات دن کی محنت سے ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں تو وہ حکومت کو اس مدے پربھی پٹخنی دے سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سربراہ کے ساتھ نہیں کھلاڑیوں کے ساتھ نظر آئے کیونکہ اگر کھلاڑیوں کا کھیل سے دل اچاٹ ہو گیا تو ملک کا نام روشن کون کرے گا اور یہ ملک کا عظیم نقصان ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلوانوں کے داؤ پینچ سے بچیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔