حکومت جی ٹوئنٹی کے عالمی فورم کو سیاسی مقصد سے استعمال کرنے میں ناکام... سہیل انجم
بہرحال حکومت جی ٹوئنٹی کے اجلاسوں کو اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال کرنے میں، سوائے اس کے کہ اس نے بی جے پی کا انتخابی نشان لوگو میں شامل کیا ہے، کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ موجودہ حکومت جو بھی قدم اٹھاتی ہے سیاسی نفع نقصان کو ناپ تول کر اٹھاتی ہے۔ اندرون ملک سے متعلق سرگرمیاں ہوں یا بیرون ملک سے متعلق۔ اس کا کوئی بھی قدم سیاسی مصلحتوں سے خالی نہیں ہوتا۔ جبکہ سابقہ حکومتیں سیاسی مصلحتوں کے بغیر صرف اور صرف ملک اور اس کے عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کر اقدامات کرتی تھیں۔ جب ہندوستان کو ایک سال کے لیے جی ٹوئنٹی کی صدارت کا موقع ملا تو حکومت نے اسے بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ جی ٹوئنٹی دنیا کے ایسے بیس ملکوں کا ایک عالمی فورم ہے جو دنیا بھر کی 80 فیصد معیشتوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، روس، چین، جاپان اور اسی طرح متعدد ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں۔
جب ہندوستان کو اس کی صدارت سونپی گئی اور ایک سال کے اندر ملک میں متعدد پروگراموں کو ترتیب دیا جانے لگا تو حکومت نے اس موقع کے لیے ایک لوگو یا شناختی نشان تیار کرنا شروع کیا جیسا کہ ہر ملک کرتا ہے۔ لیکن لوگو تیار کرنے میں بھی اس نے اپنی سیاسی پارٹی یعنی بی جے پی کو سامنے رکھا اور جو لوگو بنایا گیا وہ کمل کے پھول کا بنایا گیا۔ تاکہ کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے مندوبین کے ذہن میں بی جے پی کا انتخابی نشان بیٹھ جائے اور لا شعوری طور پر وہ یہ بھی سمجھنے لگیں کہ یہی ہندوستان کا شناختی نشان ہے۔ اب جہاں جہاں اس کے تحت پروگرام اور کانفرنسیں ہو رہی ہیں وہاں وہاں اس لوگو کی نمائش کی جاتی ہے۔ حالانکہ حکومت کے اس قدم کی مخالفت کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے کی تھی لیکن یہ حکومت کسی کی سنتی کہاں ہے۔ اس کے سامنے تو اپوزیشن پارٹیوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
بہرحال گزشتہ دنوں بنگلور میں گروپ بیس کے وزرائے خزانہ کا اجلاس ہوا اور نئی دہلی میں وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ واضح رہے کہ یوکرین پر روسی حملے کو ایک سال ہو گیا ہے اور اس دوران جنگ بند کرانے کی کوششیں ہوئیں لیکن یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ موجودہ سیاسی و جغرافیائی صورت حال کی وجہ سے عالمی فورموں پر ہندوستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ پہلے بھی اس کی اہمیت رہی ہے لیکن سابقہ حکمراں جماعتیں اس اہمیت کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرتی تھیں۔ اس اہمیت کی وجہ سے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے اچھے روابط کی وجہ سے مودی سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ جنگ بند کرنے کے لیے پوتن پر زور ڈالیں۔ انھوں نے کوششیں بھی کیں اور پوتن کے علاوہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی سے بھی متعدد بار گفتگو کی۔ لیکن وہ پوتن سے اپنے بزعم خویش دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر بھی انھیں جنگ بند کرنے کے لیے آمادہ نہیں کر سکے۔
یاد ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکہ اور اس کی قیادت میں یوروپی اور مغربی ممالک نے روس پر متعدد پابندیاں نافذ کر دی ہیں۔ انھوں نے روس سے تیل خریدنے والوں کے خلاف بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ہندوستان نے روس سے تیل خریدنے کا عمل اور تیز کر دیا اور اب وہ اس سے زیادہ تیل خریدنے لگا ہے۔ لیکن موجودہ عالمی صورت حال کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادی ہندوستان پر پابندی لگانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ چونکہ جنوبی ہند کی صورت حال اور یہاں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ کو ہندوستان سے تعلقات کو بنائے رکھنے کی ضرورت ہے لہٰذا روس سے تیل خریدنے پر ہندوستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ تاہم نریند رمودی زیادہ تیل خریدنے کے باوجود پوتن کو جنگ بند کرنے پر آمادہ نہیں کر سکے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایس سی او کے اجلاس میں ان سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ یہ جنگ کا دور نہیں ہے۔
جب جی ٹوئنٹی کا اجلاس ہونے والا تھا تو ہندوستان نے ایک بار پھر روس کو جنگ بند کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ حسب امکان بنگلور اور دہلی میں ہونے والی کانفرنسوں سے قبل یوکرین روس جنگ کے تعلق سے بیانات آنے لگے اور یہ کہا جانے لگا کہ یہ معاملہ ان کانفرنسوں میں چھایا رہے گا۔ اور ہوا بھی وہی۔ دونوں اجلاسوں میں اس مسئلے پر شدید اختلافات دیکھنے کو ملے۔ امریکہ اور اس کی قیادت میں مغرب نے جنگ کے لیے روس کی شدید مذمت کی جبکہ روس نے جنگ کی ذمہ داری برطانیہ اور مغربی ملکوں پر ڈالی۔ اجلاسوں کے دوران فریقین نے اپنے اپنے موقف پر جمے رہنے کا اعلان کیا اور جب بنگلور میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کی تیاری ہوئی اور اس میں روسی حملے کی مذمت کی گئی تو روس اور چین نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اس معاملے پر اتفاق رائے قائم نہ ہونے کی وجہ سے مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا جا سکا۔ اس کی جگہ پر ’چیئرز سمری اینڈ ڈاکومنٹ‘ جاری کیا گیا جس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ ہندوستان کی لاکھ کوششوں کے باوجود یوکرین مسئلے پر اختلافات ختم نہیں ہوئے۔
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس ناکامی کا اعتراف کیا اور کہا کہ اگر ذہنوں میں ہم آہنگی ہوئی ہوتی تو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اگر چہ اس معاملے پر ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تادم تحریر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے البتہ سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے یوکرین جنگ کو جنگ قرار دینے میں جھجک کی وجہ سے مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ روس اسے جنگ نہیں مانتا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین میں ایک فوجی آپریشن چلائے ہوئے ہے۔ ہندوستان نے اگرچہ یہ بات کہی کہ وہ جنگ کے حق میں نہیں ہے اور مذاکرات اور سفارت کاری سے مسئلے کے حل کے حق میں ہے لیکن اس نے ایک بار بھی حملے کے لیے روس کی مذمت نہیں کی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حالانکہ ہندوستان کے اس موقف کی تائید کی جا رہی ہے لیکن کچھ آزاد تجزیہ کار اس سلسلے میں حکومت ہند کے موقف پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ لیکن بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے کئی ممالک کی نظریں ہندوستان پر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کوئی مثبت اور نتیجہ خیز کوشش کر سکتا ہے۔ حالانکہ ابھی تک کی کوششیں تو کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ بنگلور اور دہلی کے اجلاسوں میں مشترکہ اعلامیہ کے جاری نہ ہونے کو کچھ تجزیہ کار ہندوستان کی ناکامی قرار دیتے ہیں جبکہ بہت سے تجزیہ کار ناکامی نہیں مانتے۔ نومبر میں دہلی میں گروپ بیس کا سربراہ اجلاس ہونے والا ہے۔ ہندوستان کی کوشش ہے کہ اس کی مدت صدارت مایوسی کے نوٹ پر ختم نہ ہو بلکہ مثبت نوٹ پر اس کا خاتمہ ہو۔
مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت ہر حال میں اپنی صدارت کو کامیاب بتانے کی کوشش کرے گی۔ ناکامی کی صورت میں بھی اس کا اعتراف نہیں کیا جائے گا۔ اپنی پیٹھ تھپتھپا کر وہ اپنے ووٹروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کرے گی کہ اس نے دنیا میں ہندوستان کا نام اونچا کر دیا ہے۔ حالانکہ وہ پہلے سے ہی اونچا ہے۔ اس نے جس طرح اس کے لوگو میں بی جے پی کے انتخابی نشان کا استعمال کیا اسی طرح وہ اجلاسوں اور کانفرنسوں کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اگر موجودہ اجلاسوں میں یوکرین کے مسئلے پر اتفاق رائے قائم ہو گیا ہوتا تو حکومت اس کا اس طرح ڈھنڈورا پیٹتی اور مودی بھکت اس طرح آسمان سر پر اٹھا لیتے کہ جیسے اس سے قبل دنیا میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ اس کا پارلیمانی انتخابات میں بھی خوب پروپیگنڈہ کیا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں : اکیسویں صدی امریکی صدی نہیں ہو سکتی... ظفر آغا
لیکن بہرحال فی الحال وہ جی ٹوئنٹی کے اجلاسوں کو اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال کرنے میں، سوائے اس کے کہ اس نے بی جے پی کا انتخابی نشان لوگو میں شامل کیا ہے، کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے فارمولے کے مطابق ’آپدا کو اوسر‘ میں کیسے بدلتی ہے اور اس میں کیسے کامیاب ہوتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔