عظیم گمنام مجاہد آزادی شہید فاضل محمد خاں اور کامدار خاں، 166ویں یومِ شہادت پر خصوصی پیشکش

28 جنوری 1858ء کو برطانوی فوج راحت گڑھ پر غالب ئی تو فاضل محمد خاں اور کامدار خاں زندہ گرفتار ہوئے، دونوں کو آناً فاناً میں 31 جنوری کو راحت گڑھ قلعے کے دروازے پر ہی تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔

<div class="paragraphs"><p>راحت گڑھ قلعہ ساگر</p></div>

راحت گڑھ قلعہ ساگر

user

شاہد صدیقی علیگ

ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ تسلط کے خلاف طویل جدوجہد کا جائزہ لینے پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کے آہنی پنجوں سے وطن عزیز کی آزادی کے لیے مسلمانان ہند اپنا لہو بہنانے میں پیش پیش رہے۔ بہ لحاظ آبادی کم تناسب کے باوجود ان کی ایک کثیر تعداد نے تحریک آزادی میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور جب تک فرنگیوں نے اپنا بستر گول نہیں کر لیا تب تک خاموش نہیں بیٹھے۔ مگر شومی قسمت ان کی قربانیوں کو تاریخ ہند کے اوراق سے رفتہ رفتہ حرف غلط کی طرح مٹایا جارہا ہے۔

سکندر بیگم حکمراں ریاست بھوپال ہندوستان کی ان فرماراﺅں میں سے ایک تھی جنہوں نے 1857ء میں تاجران فرنگ کا کھل کر ساتھ دیا جبکہ وہاں کی محب وطن عوام انگریزوں کے خلاف کھڑی تھی۔ یوں تو ملک کے دوسرے حصوں کی طرح بھوپال میں بھی سپاہیوں اور عوام کے درمیان خفیہ سرگرمیاں زوروں پر تھیں، لیکن 12-11 جولائی 1857ء کو شہر میں ہونے والے علماء کرام کی دو میٹنگوں نے شہر کی فضا یکسر بدل دی۔ کیونکہ مولویوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتویٰ کا اعلان صادر کر دیا تھا۔ جس کے بعد فاضل محمد خاں اور ان کے چھوٹے بھائی عادل محمد خان ساکن گڑھی ضلع رائے سین نے کمپنی بہادر سے مقابلہ کرنے کے لیے سرفروش جیالوں کی ایک ملیشیا بنائی۔ جس میں بھوپال فوج اور بھوپال کن ٹن جینت کے فوجی اور سوار بھی اپنی ملازمت چھوڑ کر شامل ہو گئے۔ عادل محمد خاں نے انگریزوں کے خلاف ایک قوی محاذ بنانے کے لیے اٹارسی کے نواب ابو سعید خاں، راگھو گڑھ کے راجہ نرسنگھ، محمد گڑھ کے نواب حافظ قلی خاں بشمول 15 ہمسایہ ریاستوں کو پیغام ارسال کیے۔ مجاہدین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر نواب سکندر جہاں کو فکر لاحق ہو گئی توان کی گھیرا بندی کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے، لیکن وہ تمام کفن بردوش غازیان کے آگے بونے ثابت ہوئے۔


28 ستمبر 1857ء فاضل محمد خاں اور عادل محمد خاں تین سو پیرو کاروں کے ساتھ چندرپور پہنچے اور پٹھاری کے نواب حیدر محمد خاں پر حملہ کر کے اس پر قابض ہو گئے، لیکن موقع و محل کے مد نظر انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ تاہم کچھ مدت گڑھی امبا پانی میں ڈیرہ جمانے کے بعد راحت گڑھ ضلع ساگر پہنچ کر وہاں کے قلعہ پر غالب ہو گئے، جہاں سے عادل محمد خاں نے نواب سکندر بیگم کو ایک خط لکھا تھا کہ جہاد چھیڑ کر ہم نے فرنگی کرسٹانوں کو کھدیڑ دیا۔

بہرکیف جولائی تا نومبر 1857ء کے دوران انقلابیوں کا بھوپال، ویریشہ، ساگر اور ہوشنگ آباد کے بیشتر علاقوں پر غلبہ قائم رہا۔ مورخہ 7 اکتوبر کو فاضل محمد خاں اور عادل محمد خاں کی رہنمائی میں مجاہدین کا ریاست بھوپال کی فوج سے راج گڑھی میں آمنا سامنا ہوا۔ اسی اثنا میں 17 جنوری کو جنرل روز بھوپال پہنچا اور روڈ میپ تیار کر کے 24 جنوری کو قلعہ راحت گڑھ کی جانب پیش قدمی کی۔ قلعے میں فاضل محمد خاں، عادل محمد خاں، کامدار خاں اور مہاویر کوٹھ کوالدار موجود تھے۔ فاضل محمد خاں نے راحت گڑھ قلعہ پر کفن بردوش مجاہدین کے ساتھ مورچہ سنبھالا تو انگریزی فوج کو اپنے قدم پیچھے کھینچنے پڑے۔ لیکن حریت پسند کمپنی بہادر، حیدرآباد اور بھوپال کی مشترکہ افواج سے آخر کب تک مقابلہ کرتے۔ لہٰذا 28 جنوری 1858ء کو برطانوی فوج راحت گڑھ پر غالب ہو گئی۔ فاضل محمد خاں اور کامدار خاں زندہ گرفتار ہوئے، دونوں کو آناً فاناً میں 31 جنوری کو راحت گڑھ قلعے کے دروازے پر ہی تختہ دار پر چڑھا دیا۔ عادل محمد خاں، مہاویر عاقل محمد خاں ایسے گم ہوئے کہ مرتے دم تک انگریزوں کی گرفت میں نہ آئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔