شیر میسور سلطان ٹیپو سلطان: ایک عظیم فرمانروا...یوم ولادت کے موقع پر خصو صی پیش کش
اگرچہ ٹیپو سلطان نے اپنی حکومت کو سلطنت خداداد سے موسوم کر رکھا تھا، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ صرف امت مسلمہ کے لیے تھی بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو یکساں حقوق اور مراعات حاصل تھے۔
شیر میسور سلطان فتح علی خاں ایک عظیم سپہ سالار ہونے کے علاوہ ایک اعلیٰ منتظم بھی تھے۔ اگرچہ ٹیپو سلطان کی زندگی کا بیشتر حصہ میدان کارزار میں گزرا، اس کے باوجود جتنا بھی وقت ملا انہوں نے اپنی رعایا کی خوشحالی اور فلاح وبہبودی پر صرف کیا۔ وہ اپنی رعایا کو مالک حقیقی کی بے مثل امانت سمجھتا تھے۔ سلطان نے حکومتی انتظام میں رعایا کو شامل کرنے کی مہم کا آغاز کیا جس کی تکمیل کے لیے ایک مجلس”زمرہ غم نباشد“ قائم کی جس کے پیش نظر شخصی اقتدار کے بجائے مشاورتی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔
یہ بھی پڑھیں : اعظم خان کے خلاف جو ہو رہا ہے وہ سراسر زیادتی ہے... ظفر آغا
ٹیپو سلطان طلوع آفتاب سے ایک گھنٹے قبل بستر چھوڑ دیتے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد تلاوت قرآن مجید سے فارغ ہوکر ریاست کے کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے۔ تمام سرکاری محکموں کی کارگزاریوں پر عقابی نظر رکھتے۔ وہ رشوت ستانی، بے ایمانی اور غبن کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے 5 جون 1794ء کو اپنے افسران کو سرنگاپٹنم میں طلب کیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے مذہب وعقیدے کے مطابق حلف لیں، کہ وہ رشوت نہیں لیں گے اور اپنے فرائض ایمانداری و دیانت داری سے ادا کریں گے۔ افسران کی تساہلی، جبر، ظلم وستم پر قدغن لگانے کے لیے انہیں عبرتناک سزائیں دینے میں بھی پیچھے نہیں تھے۔
میکنزی کے مطابق:
”خوش انتظامی کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے پورے نظام میں صحت مندی کی روح پھونک دی تھی اور ریاست کے معاشی مسائل کو جس طرح سے انہوں نے منظم کیا تھے۔ پڑوسی ریاستوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ درمیانی کارندوں کو ان کی بے ایمانیوں کی سخت سزائیں دے کر سلطان اپنی رعایا کو جن میں بیشتر ہندو تھے، سیاہ کار افسروں کی بد اعمالیوں سے محفوظ رکھتے۔“
ٹیپو سلطان کی حکومت (1) کچہری میر آصف: شعبہ محاصل ومالیات (2) کچہری میرمیران: فوجی (3) کچہری میر میران زمرہ: مقامی فوجی سے متعلق (4) کچہری میر صدر: ذخائر حربی اور حفاظتی فوج (5) کچہری ملک التجار: شعبہ تجارت (6) کچہری میریم: بحری (7) کچہری میر کاظم: خزانہ اور ٹکسال (7) جیسے سات محکموں میں منقسم تھی۔ ہر محکمے کا ایک بورڈ ہوتا تھا جو ایک اعلیٰ اور اس کے ماتحت افسران پر مشتمل ہوتا۔ بورڈ کی میٹنگ وقتاً فوقتاً منعقد کی جاتی۔ جس کے فیصلے رائے دہی سے کیے جاتے۔ بورڈ کی کاروائیوں سے ٹیپو کو بروقت مطلع کیا جاتا۔ ان محکموں کے علاوہ ڈاک اور خبر رسانی،عمارات عامہ غلاموں اور مندروں کی دیکھ بھال کے لیے شعبے بھی قائم تھے۔ سلطنت خداداد کی پانچ ٹکسالیں تھیں۔ ایک ٹکسال محل کے حدود میں قائم تھی تو باقی چار محل کے باہر قائم تھیں۔ ہرٹکسال کا ایک دروغہ تھا۔ ان کے جاری کردہ ڈبل روپے کے سکّے کو ہندوستان میں ڈھالے گئے تمام سکوں میں فوقیت حاصل ہے۔
اگرچہ ٹیپو سلطان نے اپنی حکومت کو سلطنت خداداد سے موسوم کر رکھا تھا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ صرف امت مسلمہ کے لیے تھی بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو یکساں حقوق اور مراعات حاصل تھے۔ اگر مسلمانوں کے معاملات شرع محمدی سے حل ہوتے تھے تو ہندوؤں کے سناتنی قوانین سے حل کیے جاتے تھے۔ کسی بھی فرقے کے مذہبی معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں کی جاتی تھی۔ رعایا کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔ اس کے کشادہ ذہن اور رواداری کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ اس نے بھی سلطان حیدر علی کی طرح ہندوؤں کو اہم عہدوں پر فائز کیا تھا۔ اس کا میر آصف (مالیات اور مال گزاری) پنڈت پورنیا، افسر خزانہ کرشنا راؤ، شیمأ آئینگر وزیر(ڈاک و پولیس)، اس کا بھائی نرسنگا راؤ آئینگر بھی متعدد محکموں میں افسر رہا، مول چند وسوجان رائے مغل دربار میں اس کے وکیل تھے اور اس کا خاص پیشکار سبا راؤ بھی ایک ہندو تھا۔ ان کا منشی نرسئیا تھا تو سرینواس راؤ اور اپا جی رام اس کے معتمد خصوصی تھے جنہیں اہم سفارتی دوروں پر روانہ کیا جاتا تھا۔ نائک راؤ اور نائک سنگانا بھی سلطان کے نور نظر تھے جن پر وہ آنکھ موند کر اعتماد کرتے تھے۔ کورگ کا فوج دار ناگپایہ ایک برہمن تھا۔ کوئمبٹوراور پالگھاٹ کے ریونیو آفیسر برہمن تھے۔ ٹیپو کی بے قاعدہ گھوڑ سوار فوج کا سربراہ ہری سنگھ تھا۔ راما راؤ اور سیواجی کے ہاتھوں میں باقاعدہ گھوڑ سوار دستے کی کمان تھی۔ ٹیپو نے روشن خاں کے ساتھ جنرل سری پت راؤ کو مالابار میں نائروں کی بغاوت کو دبانے کے لیے روانہ کیا تھا۔
مستقل شناس ٹیپو سلطان اس بات سے آشنا تھے کہ فرنگیوں کے پاس جدید سامان حرب کا ذخیرہ ہے لہٰذا ان کا مقابلہ پرانے اور فرسودہ جنگی ساز وسامان سے ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ انہوں نے جدید تکنیک سے اپنی افواج کو آراستہ کرنے کا عزم کیا۔ میزائیل کی ایجاد اس کے جدیدیت پسند ہونے کی گواہ ہے۔ جس کا استعمال کرکے انگریزوں کو دن میں تارے دکھا دیئے تھے۔ ٹیپو نے نہ صرف پیدل اور کولیری کے اوپر اپنی توجہ مرکوز کی، بلکہ بحریہ کے بیڑے کو بھی اپنی فوج میں داخل کیا، بحریہ کا قیام سلطان کا ایک عظیم کارنامہ تھا۔ فوجی قواعد کے لیے کتاب ”فتح المجاہدین“ترتیب دی۔ ٹیپو سلطان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح تجارت کے فروغ کے لیے کَچھ کے علاوہ 1785ء میں مسقط اور 1789ء میں جدہ میں تجارتی کوٹھیاں تعمیر کرائی تھیں۔
قابل ذکر امر ہے کہ جب تک انگریز ٹیپو سلطان کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار نہیں ہوئے تھے جب تک ٹیپو ان کی نگاہ میں ایک رحم دل، لائق اور ہردل عزیز فرماروا تھے لیکن جیسے ہی ٹیپو نے اپنی جواں مردی، حکمت عملی اور فراست سے فرنگی فوجوں کے چھکے چھڑائے تو وہ اس کے کٹر دشمن بن گئے اور ٹیپو سلطان کو حملہ آور، ہندوکش اور جابر حکمراں جیسے القاب سے پکارنے لگے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بھی آزاد ہندوستان میں انگریزوں کے مقلد موجود ہیں جنہیں شیر میسور اپنا سب سے بڑا حریف نظر آتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔