’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘ ... مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی نے واضح لفظوں میں کہا کہ سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیریؒ علماء دیوبند کے اکابر کے سلسلہ قدوسیہ چشتیہ صابریہ کے نہایت اہمیت کے حامل اعلیٰ مرتبت ایک شیخ طریقت ہیں
ابھی ابھی چند روز کی بات ہے کہ نیوز 18 ٹی وی چینل کے اینکرم امیش دیوگن نے اللہ کے ولی دنیا کے مال ودولت سے بے نیاز درویش اپنی روحانی کمالات کی وجہ سے سینکڑوں سال سے لاکھوں ہندو اور مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن سلطان الہند خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں انتہائی احمقانہ اور جاہلانہ جملہ کہا تھا، جس سے پورے ہندوستان میں کہرام مچ گیا، راقم الحروف اگرچہ کبھی سلطان الہند خواجہ اجمیریؒ کے عرس میں شریک نہیں ہوا، لیکن خود میں اور میرے بزرگ جو اپنے آپ کو خواجہ اجمیریؒ کے در کا غلام مانتے ہیں ان کے آستانہ تک حاضری اور فاتحہ خوانی کو باعث سعادت گردانتے ہیں۔
سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیریؒ علماء دیوبند کے اکابر کے سلسلہ قدوسیہ چشتیہ صابریہ کے نہایت اہمیت کے حامل اعلیٰ مرتبت ایک شیخ طریقت ہیں؛ چنانچہ بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے اپنے شجرہئ منظومہ میں ان لفظوں میں ان کو یاد فرمایا ہے:
بحق آنکہ شاہ اولیا شد – در او بوسہ گاہ اولیا شد
معین الدین حسن سجزی کہ برخاک – ندیدہ چرخ چوں او مرد چالاک
”اے اللہ ان کے طفیل اور صدقہ میں جو اولیا کے بادشاہ ہوئے ہیں، جن کی چوکھٹ اولیاء اللہ کی بوسہ گاہ ہے، یعنی خواجہ معین الدینؒ کہ ان جیسا باکمال ولی آسمان نے زمین پر دیکھا نہیں ہے“۔(میرے دل کو ہر باطل کی محبت سے پاک فرما)۔
اسی طرح مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے 1951ء یا 1952ء میں شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف تشریف لے گئے تھے وہاں کے سجاد گان نے حضرت مدنی رحمہ اللہ کا بڑا احترام کیا تھا سر پر پگڑی باندھی تھی اور کچھ تبرکات بھی پیش کیے تھے رات کے پروگرام میں حضرت مدنیؒ نے تقریر فرمائی: ”کہ جس طرح آج سے کم وبیش 13سو سال پہلے انوار نبوت وہدایت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے ظاہر ہوئے اور تمام عالم کے لئے آپ کی ذات والا صفات سر چشمہ ہدایت بنی اور رہتی دنیا تک بنی رہے گی اسی طرح ہندوستان کے لئے غلام مصطفی حضرت خواجہؒ کی ذات کو اللہ نے راہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی اپنی مخلوق کے لئے سر چشمہ ہدایت بنایا ہے صرف ان کی مبارک صورت کو دیکھ کر دہلی سے اجمیر تک بے شمار لوگ ان کے قدموں پر گرے اور شرک وکفر سے تائب ہو کر اپنے اللہ کے سچے فرماں بردار بنے ہیں“ اسی لئے باوجودیکہ خواجہ رحمہ اللہ ایک فقیر اور درویش تھے لیکن لوگوں کے دلوں پر ان کی حکومت تھی ان کو سلطان الہند آج تک کہا جاتا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ہندو اور مسلمان خواجہ کی بارگاہ پہنچتے رہتے ہیں ایسی ذات والا صفات جو اپنے مشائخ کے حکم سے اجمیر پہنچے اور اللہ کے دین کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے کام کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے اور اجمیر شریف ہی کو قیامت تک اپنا مسکن بنا ڈالا ان کو ”لٹیرا“ کہنا، کہنے والے کی بدبختی نہیں تو اور کیا ہے؟۔
باہر سے آنے والے مسلم بادشاہوں کو ہندوستان میں کچھ لوگوں نے یہ لقب دیا ہے کہ وہ ہندوستان کی دولت کو سمیٹ کر باہر لے گئے، یہ بات ان بادشاہوں کے لئے کہی جا سکتی ہے جو حملہ آور ہوئے اور لوٹ گئے اگرچہ وہاں بھی تاریخی اعتبار سے دلائل کو بنیاد بنانا پڑے گا، لیکن وہ بادشاہ جو آئے اور ہندوستان ہی کو انھوں نے اپنا وطن بنا لیا وہ اور ان کی اولاد اور خاندان سینکڑوں سال حکومت کرتے رہے اور مرتے رہے ان کی قبریں ہندوستان ہی میں موجود ہیں تو ان کو لٹیرا کیسے کہا جا سکتا ہے؟ لیکن اس سے آگے بڑھ کر اللہ کے ولی فقیروں اور ولیوں کو لٹیرا کہنا یہ تو کہنے والے کی اپنی نادانی اور تاریخ سے بے خبر ہونے کی دلیل ہے۔
لٹیرا اگر کہا جاسکتا ہے تو انگریز اور خاص طور پر (ایسٹ انڈیا کمپنی) کو کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ لوگ ہندوستان کو لوٹنے کھسوٹنے کے لئے ہی آئے تھے اور انھوں نے اپنے دور اقتدار میں ہمارے ملک کی دولت کو لوٹ کھسوٹ کر اپنے خزانے کو آباد کیا ہے، ”معیشت الہند“ کے مصنف لکھتے ہیں کہ: 1601ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا سرمایہ کل 30 ہزار پونڈ تھا لیکن 60 سال کی مدت میں ”چارلس دوم“ ”کرام ول“ کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے 3 سے لے کر 4 لاکھ پاؤنڈ تک نذرانہ پیش کیا ہے، یہ غور کرنے کی بات ہے کہ کمپنی جب نذرانہ 4/لاکھ پاونڈ دے رہی ہے تو اس کا اپنا سرمایہ کتنے کروڑ پاؤنڈ ہو گیا ہوگا؟ جو صرف 60 سال میں سونے کی چڑیا ہندوستان کی دولت کو لوٹ کر بنا ہے۔ یہ بات سوچنی چاہیے کہ جب ساٹھ سال میں یہ لوٹ ہوئی ہے تو تین سوسال میں کتنی لوٹ ہوئی ہوگی۔
1757ء میں ”کتاب قانون تمدن وتنزل“ ”بروکس ایڈسن“ لکھتا ہے کہ بنگال کے خزانے یعنی کروڑوں آدمیوں کی کمائی ”نواب سراج الدولہ کی حکومت کو گرانے کے بعد انگریزوں نے ہتھیا کر لندن اسی طرح بھیج دی جس طرح رومن نے ”یونان اور پونٹس“ کے خزانے ”اٹلی“ بھیج دیئے تھے، ہندوستان کے خزانے کتنے قیمتی تھے کوئی انسان بھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا، لیکن وہ کروڑوں اشرفیاں ہوں گی، اتنی دولت اور ثروت کہ مجموعی یورپین دولت سے بہت زیادہ تھی۔
”بروکس ایڈسن“ نے اپنی مذکورہ کتاب میں سرولیم دگبی کا یہ قول بھی لکھا ہے کہ بنگال میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ اسی جنگ پلاسی 1757ء کے بعد بنگال کی دولت لُٹ لُٹ کر لندن پہنچنے لگی اور اس کا اثر فوراً ہی ظاہر ہوگیا۔
”میجروینکٹ“ کہتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹروں کے ساتھ سَرسَری اندازہ کے ساتھ بڑی آسانی کے ساتھ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ جنگ پلاسی 1757ء اور جنگ واٹر لو 1815ء کے درمیانی زمانہ میں ہندوستان سے انگلستان کو پندرہ ارب روپیہ جا چکا تھا۔ (ماخوذ از نقش حیات)
اسی مدت کے اندر 1799ء میں ریاست میسور کے نواب سلطان ٹیپو رحمہ اللہ کو سرنگا پٹنم میں شہید کیا گیا اور ان کی شہادت کے بعد انگریز فوجی لٹیروں نے ان کے خزانے اور وہاں کے رہنے والے ہندو اور مسلمانوں کی دولت وثروت بلکہ ان کی عورتوں کی عزت وآبرو کو جس طرح لوٹا ہے اس کو جاننے کے لئے ”سلطنت خداداد“ کتاب کے صفحات کو 323 سے 337 تک دیکھا جائے، ہم نے جو بھی باتیں نقل کی ہیں وہ خود انگریز مصنفین ہی کی لکھی ہوئی باتوں کو نقل کیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس اینکر کو ایک خدا رسیدہ درویش دنیا کی دولت کو ٹھوکر مارنے والا ہندو اور مسلمانوں کے دلوں پر حکومت کرنے والا خدا کا ولی تو ”لٹیرا“ نظر آتا ہے لیکن سونے کی چڑیا ہندوستان کی دولت کے خزانوں کو لوٹ کر انگلستان پہنچانے والا اور ہندوستان کوتنگ دست اور فقیر بنا کر پوری ہندوستانی قوم کو غلام در غلام بنانے والا ”لٹیرا“ نظر نہیں آتا، یہ اینکر اسی غلام بنانے والی قوم کی زبان، اس کی تہذیب اور اس کے تمدن کو 70 سال کے بعد بھی اپنے لئے باعث صد افتخار سمجھتا ہے جس کا مطلب ہے کہ آج بھی اسی ”لٹیری“ قوم کا غلام ہے اور غلامی کا احساس بھی اس کو نہیں ہوتا، بلکہ ملک کا ایک طبقہ انگریز جیسی لٹیری قوم کی محبت میں خود لٹیرا بنکر ہندوستان کے غریب عوام کی ہزاروں ہزار کروڑ کی دولت لوٹ کر بھاگتا ہے تو اپنے لئے پناہ گاہ یورپ اور خاص طور پر انگلینڈ ہی کو بناتا ہے۔ ان لٹیروں اور بھگوڑوں کی فہرست پارلیمنٹ میں پچھلے دنوں پیش کی گئی تھی لیکن میں نہایت خوش ہوں اور آپ لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ کی اپنی زندگی تو نہایت پاکیزہ اور بلند ترین ہے ان کی غلامی کا دم بھرنے والے کسی ایک کا نام بھی ہندوستان کے لٹیروں اور بھگوڑوں کی اس فہرست میں آپ کو نہیں ملے گا۔
میں آخر میں اس دریدہ دہن اینکر کو نصیحت کرتا ہوں کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تمہاری طرف سے خواجہ کی شان میں یہ گستاخی تم کو بربادی کی اوڑ تک نہ پہنچا دے،اس لئے خواجہ کی چوکھٹ پر پہلی فرصت میں جاؤ نذرانہ پیش کرو اور دونوں ہاتھ باندھ کراپنی گستاخی کی معافی مانگو تاکہ تم اس گستاخی کے بھیانک اور برے انجام سے محفوظ رہ سکو اور آئندہ کے لئے اس طرح کی توہین آمیز باتوں سے توبہ کر کے آؤ اور حلال روزی کما کرکے اپنے اور اپنی اولاد کے پیٹ کو پالو اور عزت کی زندگی گزارو۔
(مضمون نگار مولانا ارشد مدنی جمعیۃ علماء ہند کے صدر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Jun 2020, 3:11 PM