دہلی پولیس کی چارج شیٹ یکطرفہ، جمعیۃ انصاف کے لئے تمام قانونی طریقے اختیار کرے گی: مولانا ارشد مدنی

مولانا مدنی نے پولیس کی یکطرفہ چارج شیٹ پر کہا کہ فرد جرم میں پولیس نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس نے تین دنوں تک جاری رہنے والے ان فسادات کو روکنے کے لئے کیا اقدامات کیے۔

مولانا ارشد مدنی کی ایک فائل تصویر
مولانا ارشد مدنی کی ایک فائل تصویر
user

یو این آئی

نئی دہلی: دہلی فسادات پر دائر دہلی پولیس کی چارج شیٹ کو یکطرفہ، متعصبانہ، اور خاص ذہنیت کی تکمیل پر مبنی اور قانون کی خلاف ورزری قرار دیتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے تمام ممکنہ قانونی طریقے اختیار کرے گی۔ اس کے لئے وکلاء کی ٹیم تشکیل کردی گئی ہے۔یہ بات جمعیۃ کے جاری بیان میں کہی گئی ہے۔

انہوں نے سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والوں کی اندھا دھند گرفتاریاں اور دہلی فسادات میں یکطرفہ کارروائیوں پر الزام لگایا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ لاک ڈاؤن کے درمیان بھی خاص طور پر مسلم اقلیت کے خلاف اپنے خفیہ ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے ارباب سیاست کی طرف سے پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کرونا کے خوف سے لوگ جب گھروں سے باہر نکلنے کا حوصلہ بھی نہیں کر پارہے تھے، اس وقت سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے کے الزام میں بے گناہ مظلوم مسلمانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ افسوس کہ سابق بیوروکریٹ ہرش مندر جیسے انسانی حقوق کے کارکن اور شاہین باغ میں لنگرلگا کر کھانہ تقسیم کرنے والے ایک انسانیت نواز سکھ ڈی ایس بندرا کو بھی پولیس کے ذریعہ ملزم بنایا گیا ہے۔


مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ پولیس کا کیا رویہ رہتا ہے اس کوسمجھنے کے لئے تلنگانہ ہائی کورٹ کا حالیہ تبصرہ کافی ہے، قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ ہائی کورٹ نے ایک پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کو لاک ڈاؤن کے دوران مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات درج کرنے پر پھٹکار لاگاتے ہوئے حیدرآباد پولیس سے سوال کیا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں درج کیے گئے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہیں کی۔ سماعت کے دوران بنچ نے مشاہدہ کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران پولیس کا اقلیت کے ساتھ ظالمانہ سلوک تھا۔

مولانا ارشد نے دعوی کیا کہ ہندوستان میں کہیں بھی فساد ہو وہ فساد نہیں بلکہ پولیس ایکشن ہوتا ہے۔ دہلی میں بھی پولیس کا یہی کردار ہے اور تمام حکومتوں میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے کہ حملہ بھی مسلمانوں پر ہوتا ہے اور مسلمان مارے بھی جاتے ہیں اور انہیں کے مکانات و دکانوں کو جلایا بھی جاتا ہے اور سنگین مقدمات لگاکر گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔ دہلی میں بھی پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں ملک سے غداری یو اے پی اے اور طرح طرح کے سنگین مقدمات کے تحت گرفتار کر رہی ہے اور گرفتار کیے گئے مسلمانوں کے خلاف متعصب میڈیا ٹرائل کرکے مسلمانوں کے خلاف ماحول بنارہا ہے۔ مولانانے کہا کہ اس فساد میں جن 53 لوگوں کی موت ہوئی تھی، ان میں مسلمانوں کی تعداد 38 بتائی جاتی ہے جو پولیس کے سایہ میں فسادیوں کے ہاتھوں انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل ہوئے، لیکن پولیس نے ان میں سے چند ہی لوگوں کے معاملے میں تحقیقات کی ہے اور باقی لوگوں کے قتل کی ذمہ داری نامعلوم فسادیوں کے سر ڈال دی گئی ہے۔ اس کے برعکس آئی بی افسر انکت شرما اور کانسٹبل رتن لال کی موت کے معاملے میں درجنوں مسلمانوں کو نامزد کر کے چارج شیٹ بنائی گئی ہے۔


مولانا ارشد نے دعوی کیا کہ فساد کا ذمہ دار کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی منافرت انگیز اور اشتعال آمیز تقریروں اور بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی پوری ذمہ داری مظاہرین پر ڈال دی گئی ہے۔ ان کے خلاف سخت دفعات لگائی گئی ہیں جن میں یو اے پی اے کے علاوہ دفعہ B 120-153-A اور 124 اے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے چند روز قبل 20 فسادیوں کے خلاف بھی چارج شیٹ دائر کی ہے۔ پولیس نے اس خبر کو بڑی اہمیت کے ساتھ جاری کیا ہے اور صاف طور پر بتایا ہے کہ دو حقیقی بھائیوں ہاشم علی اور عامر علی کے قتل کے الزام میں اس نے 20 فسادیوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کردی ہے لیکن پولیس نے مذکورہ 20 گرفتار فسادیوں کے خلاف جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس میں دنگا، آگ زنی اور قتل کی دفعات نہیں لگائی گئی ہیں۔ گویا عملاً متاثرین کو ہی فساد شروع کرنے کا ذمہ دار مان لیا گیا ہے اور غیر جانبدار نظر آنے کے لئے دو مسلم نوجوانوں کے قتل کے الزام میں جن 20 ہندوؤں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کو بالواسطہ طورپر محض جوابی اور دفاعی حملہ کا قصوروار گردانا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایک ہندی روزنامہ میں شائع اودھیش کمار کی رپورٹ کے مطابق اب تک تقریباً 2650 لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں، ان میں ہندو صرف 550 باقی 2100 مسلمان ہیں۔ یہ سب اس وقت جیل میں ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے CAA کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں نمایاں طور پرحصہ لیا تھا لیکن انہیں بھی فسادات سے جوڑ دیا گیا ہے۔

مولانا مدنی نے پولیس کی یکطرفہ چارج شیٹ پر کہا کہ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فرد جرم میں پولیس نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس نے تین دنوں تک جاری رہنے والے ان فسادات کو روکنے کے لئے کیا اقدامات کیے تھے اور موقع واردات سے کتنے فسادیوں کوحراست میں لیا گیا تھا۔ خود وزارت داخلہ کی طرف سے پارلیمنٹ میں بیان دیا گیا تھا کہ 300 لوگ قتل وغارت گری کرنے پڑوسی ریاست اتر پردیش سے یہاں آئے تھے۔ پولیس نے اپنی فرد جرم میں نہ تو ان لوگوں کا کوئی ذکر کیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ یہ کون لوگ تھے اور ان کا تعلق کس سیاسی پارٹی سے تھا۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر واقعی یہ فساد منصوبہ بند تھا اور اس کے لئے باقاعدہ مسلمانوں کی طرف سے سازش رچی گئی تھی تو پولیس کا خفیہ محکمہ اس سا ز ش کا قبل از وقت پتہ لگانے میں ناکام کیوں رہا؟


مولانا نے مدنی نے حکومت کے طریقہ کار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ پورا ملک کورونا جیسی مہلک بیماری کی زد میں ہے ملک کے شہری ڈر اور خوف کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں، لیکن نفرت کی سیاست کا کھیل بہت منصوبہ بند طریقے سے جاری ہے۔ کورونا کے خلاف موثر اور فیصلہ کن جنگ لڑنے کی جگہ حکومت کو اپنے طے شدہ نشانے کو پورا کرنے کی زیادہ جلدی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔