کانگریس کے بارے میں شرد پوار کی بامعنی پیشین گوئی...سہیل انجم
شرد پوار نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں پیشین گوئی کی ہے کہ آئندہ دو تین سال کے اندر علاقائی پارٹیاں کانگریس کے قریب آئیں گی اور ان میں سے کئی اس میں خود کو ضم کر لیں گی
این سی پی کے رہنما شرد پوار نصف صدی سے زائد کا سیاسی تجربہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت ہندوستان میں کوئی سیاست داں ان کے جیسا سیاست کا سرد و گرم چشیدہ نہیں ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ وہ جب کوئی بیان دیتے ہیں تو اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے جسے ان کے حامیوں کے علاوہ مخالفین بھی نظرانداز کرنے کی جرأت نہیں کر پاتے۔ انھوں نے ابھی حال ہی میں ایک انٹرویو میں یہ پیشین گوئی کی ہے کہ آئندہ دو تین سال کے اندر علاقائی پارٹیاں کانگریس کے قریب آئیں گی اور ان میں سے کئی اس میں خود کو ضم کر لیں گی۔ ان کی اس پیشین گوئی کی صحافیوں کی جانب سے اپنے اپنے انداز میں تشریح کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ارے میں تو پھنس گیا اڈانی امبانی کے چکر میں...سہیل انجم
شرد پوار کی سیاسی پرورش کانگریس کے اصول و نظریات کی گود میں ہوئی ہے۔ وہ نہرو گاندھی کی پالیسی کے حامی رہے ہیں۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ کانگریس میں گزارنے کے بعد 1999 میں کانگریس سے علیحدگی اختیار کی اور اپنی الگ پارٹی ”نیشنلسٹ کانگریس پارٹی“ یعنی این سی پی بنائی۔ لیکن اس کے باوجود وہ خود کو کانگریسی نظریے کے قریب پاتے رہے۔ مہاراشٹر میں گزشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد جب بی جے پی اور شیو سینا میں وزیر اعلیٰ کے منصب کے سلسلے میں اختلافات پیدا ہو گئے اور ریاست میں کافی دنوں تک سیاسی بے یقینی کی صورتحال رہی تو کانگریس، شیو سینا اور این سی پی کو قریب لانے اور ”مہا وکاس اگھاڑی“ قائم کرنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس سہ فریقی اتحاد نے ا س وقت تک ریاست میں حکومت کی جب تک کہ ایکناتھ شندے نے بی جے پی کے فریب میں آ کر ادھو ٹھاکرے کو دھوکہ دے کر پارٹی کو توڑ نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں : کانگریس کے داؤ سے بی جے پی حواس باختہ...سہیل انجم
شرد پوار کانگریس کی سینئر رہنما سونیا گاندھی کے اٹلی نژاد ہونے کی مخالفت کی بنیاد پر کانگریس سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ حالانکہ اس وقت بھی سونیا گاندھی بہت سے ہندوستانیوں سے زیادہ ہندوستانی تھیں اور اب تو مکمل طور پر ہندوستان کی تہذیب و ثقافت میں رنگ اٹھی ہیں۔ دراصل شرد پوار خود کانگریس کا صدر بننے کے خواہشمند تھے مگر پارٹی کی اکثریت نے سونیا گاندھی کو صدر مقرر کر دیا۔ یہ بات ان کو پسند نہیں آئی اور انھوں نے اپنی الگ پارٹی بنا لی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعد انھوں نے سونیا گاندھی کے لیے کبھی متنازع یا توہین آمیز بیان نہیں دیا۔ اسی طرح سونیا گاندھی نے بھی شرد پوار کے سلسلے میں کبھی کوئی گفتگو نہیں کی۔ یہاں تک کہ راہل گاندھی نے بھی کبھی کبھی لکشمن ریکھا پار نہیں کی۔ یہی وجہ رہی کہ کانگریس سے الگ ہونے کے باوجود کانگریسی رہنماؤں اور بالخصوص سونیا گاندھی اور راہل گاندھی سے ان کے رشتے کبھی خراب نہیں ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں : الیکشن کمیشن: بغیر دانتوں والا شیر...سہیل انجم
جب راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا شروع کی تو شرد پوار نے ان کی حمایت کی۔ وہ وقتاً فوقتاً ان کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ کانگریس کی بھی کوشش رہی ہے کہ شرد پوار اس سے دور نہ جائیں۔ حالانکہ اس درمیان وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں اور مودی کبھی انھیں اپنا سیاسی گرو کہہ کر اور کبھی دوسرے انداز میں ان کی ستائش کر کے ان کو کانگریس سے برگشتہ اور بی جے پی کے قریب لانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن وہ اس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ بلکہ اس کے برعکس جب بھی ان کو موقع ملا اپنے سیاسی مفاد کے پیش نظر شرد پوار کے خلاف بیان بازی بھی کی۔ شرد پوار نے ان کے بیان کا ترکی بہ ترکی جواب دیا اور یہ واضح کیا کہ وہ وہ نظریاتی طور پر کانگریسی ہیں اور رہیں گے۔
لہٰذا جب ان کے جیسے سینئر موسٹ سیاست داں نے یہ بات کہی کہ دو تین سال کے اندر علاقائی جماعتیں کانگریس کے قریب آئیں گی اور کچھ اس میں ضم ہو جائیں گی تو یقینی طور پر بی جے پی اور بالخصوص مودی کو اچھا نہیں لگا۔ اسی لیے انھوں نے پھر پوار کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کے اس بیان کا یہ مطلب نکالا جانا چاہیے کہ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔ وہ ایک بار پھر ایک ملک گیر سیاسی پارٹی کی حیثیت سے ابھر رہی ہے اور الیکشن بعد مرکز میں اس کی قیادت میں حکومت بننے والی ہے۔
بی جے پی کی طرف سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مودی کے مقابلے میں کون؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مودی کے مقابلے میں پورے ملک کے عوام۔ اس کے ساتھ ہی 1977 کے پارلیمانی انتخابات کی مثال پیش کی جاتی ہے جب اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مقابلے میں کوئی بھی وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار نہیں تھا۔ لیکن جب جنتا پارٹی کی جیت ہوئی تو مرارجی دیسائی کے نام پر اتفاق ہوا۔ آج بہت سے سیاست داں راہل گاندھی کے چہرے میں مرارجی دیسائی کی شبیہ دیکھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شرد پوار بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ مودی حکومت واپس نہیں آ رہی ہے اور کانگریس کی قیادت میں حکومت بننے جا رہی ہے۔
جہاں تک علاقائی پارٹیوں کا کانگریس کے قریب آنے کا معاملہ ہے تو یہ سلسلہ اسی الیکشن سے شروع ہو گیا ہے۔ اتر پردیش میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی میں اتحاد قائم ہے۔ دہلی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے اتحاد کیا ہے۔ مغربی بنگال میں کانگریس کے ساتھ بائیں بازو نے اتحاد کیا ہے۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے سے اس کا اتحاد ہے۔ مہاراشٹر میں این سی پی اور شیو سینا سے اتحاد ہے۔ کیرالہ میں بھی مقامی پارٹیوں سے کانگریس کا اتحاد ہے۔ آندھرا پردیش میں کانگریس جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر سی پی کی در پردہ حمایت کر رہی ہے۔ ہریانہ میں آزاد سیاست داں کانگریس کی حمایت کر رہے ہیں۔
ادھر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو بھی اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ نریندر مودی اقتدار میں واپس نہیں آ رہے ہیں اور انڈیا اتحاد کی حکومت بن رہی ہے۔ انھیں جوں ہی اس کا احساس ہوا انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ وہ انڈیا اتحاد کی حکومت کی باہر سے حمایت کریں گی۔ لیکن اگلے روز ہی انھوں نے کہہ دیا کہ انھوں نے انڈیا اتحاد کی پرورش کی ہے اور وہ اس کا حصہ ہیں۔ ممتا بنرجی بھی ایک تجربہ کار سیاست داں ہیں۔ ان کی باتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان کو یہ محسوس ہوتا کہ انڈیا اتحاد کمزور ہے یا وہ مابعد انتخاب حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں آئے گا تو وہ ایسا بیان بالکل نہیں دیتیں۔
البتہ وہ چاہتی ہیں کہ انڈیا اتحاد میں کمیوسٹ پارٹیاں اور مغربی بنگال کی کانگریس شاخ شامل نہ رہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ریاست میں جب کانگریس کا کمیونسٹ پارٹیوں سے اتحاد ہے تو وہ اس کو چھوڑ دے گی۔ یوں بھی ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں کمیونسٹ پارٹیوں سے اتحاد تھا ہی۔ وہ باہر سے حکومت کی حمایت کر رہی تھیں۔ لہٰذا الیکشن بعد کانگریس ان کو کیسے چھوڑ دے گی۔ جہاں تک مغربی بنگال کانگریس کو اس سے الگ رکھنے کی بات ہے تو یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی سے کہا جائے کہ میں تمھارے سامنے دوستی کا ہاتھ اسی وقت بڑھاؤں گا جب تم اپنا ایک ہاتھ کاٹ دوگے۔ بہرحال ممتا بنرجی کے خیالات اور بیانات میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شرد پوار کی پیشین گوئی کتنی سچ ثابت ہوتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔