کانگریس کے داؤ سے بی جے پی حواس باختہ...سہیل انجم

امیٹھی میں طے تھا کہ بی جے پی کی طرف سے اسمرتی ایرانی لڑیں گی، حالانکہ ان کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے۔ جے رام رمیش نے بڑی دلچسپ بات کہی ہے کہ اسمرتی ایرانی کی شناخت راہل گاندھی کی مخالفت کی وجہ سے ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

سہیل انجم

کانگریس نے امیٹھی اور رائے بریلی میں جو زوردار داؤ چلا ہے، بی جے پی نے اس کا تصور تک نہیں کیا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی کے پاس اپنا بھی دماغ ہے اور آر ایس ایس کا بھی ہے۔ لیکن ان دونوں دماغوں نے بھی وہ نہیں سوچا ہوگا جو کانگریس نے کر دیا۔ بی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ تک نے بھی ایسا گمان نہیں کیا ہوگا کہ ان لوگوں نے جو سوچ رکھا ہے وہ سب کرنے کا انھیں موقع ہی نہیں ملے گا۔ بی جے پی نے سوچا تھا کہ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی اس کے جال میں پھنس جائیں گے اور اس نے میڈیا کے ساتھ مل کر جو بیانیہ تیار کیا ہے اس کے مطابق راہل گاندھی امیٹھی سے پرچہ داخل کر دیں گے۔ اس صورت میں راہل کو امیٹھی میں قید کرنے کا ایک موقع مل جائے گا اور وہ ملک کے دیگر حصوں میں انتخابی مہم چلانے کی فرصت نہیں نکال پائیں گے۔

اس کے علاوہ یہ بھی سوچا گیا تھا کہ کسی بھی طرح ایک بار پھر راہل کو ہرا دیا جائے گا اور اس طرح ان کی سیاست کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ لیکن راہل نے ان سب قیاس آرائیوں اور حکمت عملیوں کو ناکام بناتے ہوئے رائے بریلی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر کے بی جے پی کی سیاسی بساط پلٹ دی۔ جس کی وجہ سے بی جے پی لیڈران حواس باختہ ہو گئے۔ اس حواس باختگی کا اندازہ وزیر اعظم کے فوری ردعمل سے ہو گیا جب انھوں نے راہل گاندھی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ڈرو مت بھاگو مت۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ خاموش رہتے۔ کیونکہ کون سا لیڈر کہاں سے لڑے گا کہاں سے نہیں اس کا فیصلہ اس کی پارٹی کرتی ہے۔


کیا کانگریس نے مودی جی پر طنز کیا کہ انھوں نے ڈر کے اپنی گاندھی نگر کی سیٹ چھوڑ دی اور وہاں سے وہ بھاگ کر وارانسی آ گئے تاکہ انھیں کوئی ہرا نہیں سکے۔ بی جے پی کے متعدد رہنماؤں نے بار بار اپنے حلقے بدلے ہیں تو کیا انھوں نے ڈر کر راہ فرار اختیار کی۔ دراصل مودی کا ردعمل ہو یا اسمرتی ایرانی کا یا پھر کسی اور بی جے پی لیڈر کا، یہ سب کھسیانی بلی کھمبا نوچے جیسی بات ہے۔ کہاں انھوں نے سوچا تھا کہ وہ امیٹھی میں راہل کو گھیر لیں گے اور کہا ں اب وہاں اسمرتی کو سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے پرانے نمائندے کشوری لال شرما یا کے ایل شرما سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر راہل امیٹھی سے لڑتے تو دباؤ ان پر ہوتا لیکن اب دباؤ اسمرتی ایرانی پر ہے۔

راہل گاندھی کو رائے بریلی کی سیٹ زیادہ سوٹ کرتی ہے۔ حالانکہ امیٹھی کے لوگوں کو راہل کا انتظار تھا۔ وہاں کے عوام اسمرتی سے بہت زیادہ ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے 2019 میں راہل کو ہرا کر اور اسمرتی کو جتا کر بہت بڑی غلطی کی تھی لیکن اب وہ اس غلطی کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن راہل نے فیصلہ کیا کہ نہیں انھیں اس امیٹھی میں اب دوبارہ نہیں جانا چاہیے جہاں ان کی شکست ہوئی ہے۔ یوں بھی رائے بریلی میں جیتنا ان کے لیے امیٹھی کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ انھیں اس حلقے میں زیادہ وقت بھی نہیں دینا پڑے گا۔ حالانکہ وہ امیٹھی سے بھی جیت جاتے لیکن انھیں وہاں زیادہ وقت دینا پڑتا۔ جس کی وجہ سے ان کی ملک گیر مہم پر اثر پڑتا۔


رائے بریلی نہرو گاندھی خاندان کی سب سے پرانی سیٹ ہے۔ امیٹھی اتنی پرانی نہیں ہے۔ رائے بریلی میں سونیا گاندھی کو کبھی شکست نہیں ہوئی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ نہرو گاندھی خاندان نے امیٹھی کو بالکل چھوڑ دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کے ایل شرما کو وہاں سے کھڑا نہیں کیا گیا ہوتا۔ کے ایل شرما تقریباً چالیس برسوں سے سیاست میں ہیں اور تقریباً بیس پچیس سال سے وہ وہاں سونیا اور راہل کے نمائندہ رہے ہیں۔ امیٹھی میں ان کو بچہ بچہ جانتا ہے اور وہ بچے بچے کو جانتے ہیں۔ انھوں نے وہاں راہل گاندھی کی طرف سے بہت کام کیا ہے۔ اس لیے اگر وہ اسمرتی ایرانی کو شکست دے دیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

امیٹھی میں تو بی جے پی کی طرف سے طے تھا کہ اسمرتی ایرانی ہی لڑیں گی۔ حالانکہ ان کی اپنی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے بڑی دلچسپ بات کہی ہے کہ اسمرتی ایرانی کی شناخت راہل گاندھی کی مخالفت کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا کانگریس نے وہاں سے راہل کو کھڑا نہ کرکے ان سے یہ شناخت چھین لی۔ لیکن رائے بریلی میں آخر وقت تک نہ تو کانگریس نے اعلان کیا اور نہ ہی بی جے پی نے۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ سے ایک روز قبل بی جے پی نے دنیش پرتاپ سنگھ کو اپنا امیدوار بنایا۔ وہ پہلے کانگریس میں تھے بعد میں سماجوادی پارٹی میں چلے گئے اور پھر بی جے پی میں آگئے۔ بی جے پی نے انھیں یوپی میں وزیر بنایا ہے۔ لیکن سیاسی طور پر ان کی کوئی بہت زیادہ حیثیت نہیں ہے۔


کانگریس نے بھی آخر وقت تک انتظار کیا کہ بی جے پی کسے امیدوار بناتی ہے۔ جب یہ صاف ہو گیا کہ کوئی بہت طاقتور امیدوار میدان میں نہیں ہے تو پھر کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ پر راہل کی امیدواری کا اعلان ہوا اور انھوں نے سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ساتھ وہاں جا کر پرچہ داخل کیا۔ اگر کانگریس راہل کی امیدواری کا پہلے ہی اعلان کر دیتی تو بی جے پی کسی بڑے لیڈر کو اتار دیتی جس کی وجہ سے راہل کو رائے بریلی میں زیادہ وقت دینا پڑتا۔ لیکن کانگریس نے انتہائی چالاکی بھرا قدم اٹھایا اور بی جے پی کو اسی کے ہتھیار سے مات دے دی۔

واضح رہے کہ رائے بریلی 1952 سے کانگریس کا حلقہ رہا ہے۔ اندرا گاندھی کے شوہر فیروز گاندھی 1952 اور 1957 میں وہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے بعد وہاں سے اندرا گاندھی الیکشن لڑتی رہی ہیں۔ وہ 1967 سے 1977 تک وہاں سے مسلسل کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ البتہ وہ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کے راج نرائن سے ہار گئی تھیں۔ لیکن 1980 میں پھر کامیاب ہوئیں۔ البتہ رائے بریلی 2004 سے سونیا گاندھی کا حلقہ ہوا کرتا تھا۔ درمیان میں نہرو گاندھی خاندان کے قریبی ارون نہرو اور شیلا کول نے بھی اس حلقے کی نمائندگی کی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پارٹی نے راہل گاندھی کے لیے امیٹھی کے مقابلے میں رائے بریلی کو زیادہ محفوظ سمجھا، اسی لیے انھیں وہاں سے کھڑا کیا ہے۔ 2919 میں رائے بریلی میں سونیا گاندھی کو مجموعی طور پر 55.8 فیصد ووٹ ملے تھے۔


اسی طرح امیٹھی بھی 1967 سے نہرو گاندھی خاندان کا روایتی حلقہ رہا ہے۔ اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی نے 1980 میں اس حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی۔ 1981 میں ایک ہوائی حادثے میں ان کی موت ہو گئی تھی۔ اس وقت اندرا گاندھی کے بڑے بیٹے راجیو گاندھی نے 1981 کے ضمنی انتخاب میں وہاں سے الیکشن لڑا اور وہ کامیاب ہوئے۔ وہ 1991 تک جب کہ ایک دہشت گرد حملے میں ہلاک ہوگئے تھے، ا س حلقے کے نمائندے رہے۔ ان کی موت کے بعد کانگریس کے سینئر رہنما ستیش شرما نے کامیابی حاصل کی۔ وہ 1996 میں دوسری بار کامیاب ہوئے۔ لیکن 1998 میں بی جے پی کے ہاتھوں ہار گئے۔ اس کے بعد وہاں سے سونیا گاندھی نے الیکن لڑا اور وہ کامیاب ہوئیں۔ بعد ازاں انھوں نے امیٹھی کو راہل گاندھی کے لیے چھوڑ دیا۔ وہ 2004 میں رائے بریلی چلی گئیں۔ راہل گاندھی 2004 سے 2019 تک وہاں سے پارلیمنٹ کے رکن رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔