اپوزیشن سیاست کا مرکزی کردار بن گئے ہیں راہل گاندھی... سراج نقوی
گزشتہ چند ماہ کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ راہل اس غلط فہمی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ مودی یا بی جے پی ناقابل تسخیر ہے۔ کانگریس لیڈر کے حالیہ امریکہ دورے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے سیاسی اثرات اور اس کے ممکنہ سیاسی فائدوں پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے، لیکن اس حقیقت سے تو بہرحال انکار ممکن نہیں کہ اس یاترا کے بعد راہل گاندھی اپوزیشن سیاست کے مرکزی کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ بات صرف کانگریس میں نیا جوش بھرنے کا سبب نہیں بنی ہے، بلکہ کانگریس کی مقبولیت میں اضافے اور کرناٹک اسمبلی الیکشن میں زبردست جیت نے اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ مودی اور امت شاہ کی بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہے۔
راہل گاندھی کے اس نئے اوتار کا اپوزیشن پارٹیاں اعتراف کریں یا نہ کریں لیکن یہ بہرحال سامنے کی حقیقت ہے کہ اس وقت بی جے پی قیادت کا پورا زور راہل گاندھی کو کمزور کرنے میں لگا ہوا ہے اور پارٹی قیادت نے باقی اپوزیشن لیڈروں پر حملے کم کر دیئے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا سبب یہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت محسوس کر رہی ہے کہ قومی سطح پر کانگریس ہی اسے اقتدار سے بے دخل کر سکتی ہے۔ اس احساس کا بڑا سبب راہل گاندھی کے سیاسی طریقہ کار میں پختگی اور تحمل کے ساتھ مضبوطی سے حالات کا سامنا کرنے اور ائیر کنڈیشنڈ کمروں سے باہر نکل کر عوام سے براہ راست رابطہ و مکالمہ کرنے کی ان کی نئی سیاسی حکمت عملی ہے۔
”بھارت جوڑو یاترا“ اس کے بعد مختلف طریقوں سے عوام سے مخاطب ہونے، بی جے پی حکومت کے ذریعہ ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کرنے، اس حیثیت سے انھیں حاصل گھر کو نہایت غیر منصفانہ طریقے سے خالی کرانے کے باوجود راہل گاندھی نے جس جوابی سیاست کا سہارا لیا اس کی توقع شائد بی جے پی قیادت اور مودی بھکتی کے نشے میں ڈوبے ہوئے پارٹی کارکنان نے بھی نہیں کی ہوگی۔ راہل نے ان تمام حالات کا نہ صرف تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ پارلیمنٹ سے باہر آکر اور عوام سے راست مکالمہ کرکے بی جے کے سامنے بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ راہل اس غلط فہمی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ مودی یا بی جے پی ناقابل تسخیر ہے۔ کانگریس لیڈر کے حالیہ امریکہ دورے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس دورے میں راہل گاندھی کی ایک بڑی حصولیابی تو یہی ہے کہ وہ جانے انجانے میں بی جے پی کے تمام بڑے لیڈروں اور اس کے میڈیا سیل کی زد پر آکر زیادہ مضبوط اور مقبول بھی ہوئے ہیں۔یہ بی جے پی قیادت کی بوکھلاہٹ اور راہل کی سیاست کی کامیابی کا ہی ثبوت ہے کہ اس وقت تمام درباری میڈیا راہل کے امریکی دورے سے متعلق خبروں پر رائے زنی کے کام میں لگ گئے ہیں۔ جو میڈیا مودی کے کسی بھی غیر ملکی دورے پر ان کی قصیدہ خوانی کو اپنا فرض عین سمجھتا ہے اس نے یہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی راہل کا موجودہ دورے میں استقبال اور مختلف یونیورسٹیوں میں ان کا خطاب کسی سرکاری پروٹوکول کے سبب نہیں ہے۔
مودی جب وزیر اعظم نہیں تھے تو امریکہ نے انھیں ویزا تک دینے سے انکار کر دیا تھا، جبکہ راہل اس وقت رکن پارلیمنٹ بھی نہیں ہیں لیکن ان کے دورے پر پورے امریکہ اور ہندوستان کی آنکھیں لگی ہیں۔ یہی بات راہل کے ہندوستانی اپوزیشن کی سیاست کا محور بن جانے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ راہل گاندھی کو بی جے پی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس کے منفی پروپگنڈے نے انھیں نئی سیاسی توانائی بخشی ہے۔ امریکہ دورے میں ایک موقع پر انھوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی ان کی رکنیت چھین لیے جانے سے انھیں ایک نئی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ جد وجہد اور بی جے پی کے خلاف لڑنے کا حوصلہ ملا ہے۔
امریکی دورے کے موقع پر دیئے گئے راہل گاندھی کے بیانات یا ان کی تقاریر پر غور کریں تو یہ واضح ہو جائے گی کہ مودی اور بی جے پی کی جارحانہ سیاست کے جواب میں انھوں نے جس حکمت عملی کا سہارا لیا ہے اس میں جارحیت نہ ہوتے ہوئے بھی متحمل مزاجی کے ساتھ تیکھاپن کام کر رہا ہے اور یہ انداز مقبول بھی ہو رہا ہے۔ نفرت کے مقابلے میں ’محبت کی دکان‘ کا سہارا لیکر انھوں نے امریکہ میں بھی اپنے مخالفین کو خاموش کر دیا۔ راہل گاندھی کو امریکہ پہنچنے پر دو گھنٹے امیگریشن کی لائن میں کھڑا رہنا پڑا، لیکن ان کا رد عمل تھا کہ ”اب میں رکن پارلیمنٹ نہیں، عام آدمی ہوں۔ مجھے یہ پسند ہے۔“ یہ بیان ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی راہل کی سیاست کا ثبوت ہے۔ کیا ہمارے وزیر اعظم زندگی کے کسی بھی حصے میں اس طرح ’عام آدمی‘ بننا پسند کریں گےِ؟ شائد نہیں۔ یہی بات راہل کو مودی سے بڑا اور ’عام آدمی‘ ہوتے ہوئے بھی خاص بناتی ہے۔
لیکن سان فرانسسکو میں جب راہل نے انڈین کمیونٹی سے خطاب کیا تو سیدھے مودی پر حملہ کر دیا اور کہا کہ ان کی سرکار نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ روکنے کی پوری کوشش کی۔ اسی پروگرام کے دوران کچھ لوگوں نے راہل، اندرا گاندھی اور کانگریس کے خلاف نعرے بازی بھی کی، لیکن راہل نے جس تحمل کے ساتھ اس صورتحال پر رد عمل ظاہر کیا وہ ان کی سیاسی پختگی کا ہی ثبوت ہے۔ انھوں نے چند لمحوں کے لیے اپنی تقریر کو روکا اور پھر بہت سکون کے ساتھ اس ہنگامے کے جواب میں صرف یہ کہا، ”نفرت کے بازار میں محبت کی دکان“۔ اس کے بعد کا کام راہل کے حامیوں نے نعرے بازی کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہو کر اور ’بھارت جوڑو‘ کے نعرے بلند کرکے خود کر دیا۔ سانفرانسسکو کے بعد اسٹین فورڈ یونیورسٹی اور پھر واشنگٹن کے پریس کلب میں بھی انھوں نے بی جے پی کی سیاست اور مودی حکومت کے طریقہ کار پر جس طرح کے حملے کیے اس کے سبب پوری بی جے پی قیادت اچانک ان کے خلاف بیان بازی پر اتر آئی اور یہی راہل کی کامیابی بھی ہے کہ اس طرح وہ اپوزیشن کی سیاست کے محور کے طور پر ابھرنے میں کامیاب رہے۔
واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں راہل کا نشانہ درباری یا گودی میڈیا بنا۔ انھوں نے صاف کہا کہ ”ہندوستان میں پریس کی طاقت کمزور ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے امریکی میڈیا سے یہ اپیل بھی کی کہ اسے نریندر مودی سے اس بارے میں سوال پوچھنا چاہیے۔ دراصل راہل گاندھی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت مسلسل اس بات پر مودی حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ سوالوں کا جواب دینے سے بچ رہی ہے۔ واشنگٹن پریس کلب میں ان کا مذکورہ بیان بھی دراصل مودی کی اہم قومی مسائل پر خاموشی کے تعلق سے حملہ ہی تھا۔ پارلیمنٹ کی اپنی رکنیت منسوخ ہونے کے معاملے پر انھوں نے ہندوستان میں بھلے ہی بہت زیادہ بیانات نہ دیئے ہوں لیکن واشنگٹن پریس کلب میں اس مسئلے پر یہ نکتہ بھی امریکی پریس کے سامنے رکھا کہ ہتک عزت کے معاملے میں 1947کے بعد وہ پہلے ایسے شخص ہیں کہ جنھیں سب سے زیادہ سزا سنائی گئی ہے۔ یہ بیان بھی دراصل ہماری عدلیہ کے ایک حصے کی صورتحال کو امریکی پریس کے سامنے رکھتا ہے اور اس کے جو اثرات ہوں گے اس سے انکار ممکن نہیں۔
راہل کے مذکورہ بیانات نے بی جے پی قیادت کو جس طرح چراغ پا کیا اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں لیکن جس طرح سے راہل کے بیانات کے جواب میں ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ باہر جاکر ہندوستان کی توہین کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے اس سے بی جے پی کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا اور پوری دنیا میں اس سے یہ پیغام جائیگا کہ بی جے پی اور مودی اپنے آپ کو ہی ’ملک‘ سمجھتے ہیں اور یہ بی جے پی کی اخلاقی شکست اور راہل کی جیت ہے۔ بہرحال راہل گاندھی کے امریکی دورے اور اس موقع پر دیئے گئے ان کے بیانات نے بھی ان کے سیاسی قد میں اضافے کے ساتھ ساتھ انھیں اپوزیشن کی سیاست کا مرکزی کردار بنا دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔