پی ایم رہائش منصوبہ: بغیر چھت کے ہی سرکاری فائلوں میں مکان کو بتایا گیا مکمل، پھر یوپی کو کیسے مل گیا ’نمبر وَن‘ کا تمغہ!
سرکار نے استفادہ کنندگان کا انتخاب ایجنسیوں اور پنچایتوں کے سروے کی بنیاد پر کرنے اور پیسے سنٹر سے ہی مستفیدین کے اکاؤنٹ میں بھیجنے کا انتظام کیا، پھر بھی گھوٹالے باز کچھ نہ کچھ راستہ نکال ہی لے رہے۔
گجرات کے راجکوٹ میں گزشتہ 19 اکتوبر کو ہوئے انڈین اربن ہاؤسنگ کنکلیو میں وزیر اعظم رہائش منصوبہ (شہری) میں نمبر-1 ریاست کا انعام اتر پردیش کو ملا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے یوپی کے چیف سکریٹری درگا شنکر مشر کو ٹرافی دی۔ لیکن دشواریاں برداشت کر رہے غریبوں کو یہ ٹرافی منھ چڑھانے والی ہے۔ اتر پردیش میں ہی لاکھوں لوگ آن لائن درخواست دے کر سروے کا انتظار کر رہے ہیں، اور جن کا سروے ہو گیا ہے وہ قسط کا انتظار کر رہے ہیں، اور قسط کے انتظار میں بغیر چھت کے نامکمل رہائش میں زندگی گزار رہے لوگوں کو ٹھنڈ میں سہرن محسوس ہونے لگی ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ روزانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت 18 لاکھ شہری اور 25 لاکھ دیہی استفادہ کنندگان کو بغیر بدعنوانی کے چھت دے چکی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ریاست میں نشان زد نئے ضرورت مندوں کی درخواست کا سروے ٹھپ ہے۔ جنھیں ایک دو قسط مل بھی گئی ہے وہ چھت کے لیے آخری قسط کا انتظار کر رہے ہیں۔
اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب سے قبل تو اس منصوبہ پر پورا دھیان دیا جا رہا تھا، لیکن انتخاب کے بعد جیسے حکومت نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ یوگی حکومت کی دوسری مدت کار میں پی ایم رہائش منصوبہ کے لیے قسطیں مشکل سے جاری ہوئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 1.50 لاکھ سے زیادہ رہائش آخری قسط کے انتظار میں ادھورے ہیں۔ علاوہ ازیں بینکوں کے ذریعہ ہاؤسنگ لون میں پی ایم رہائش کے نام پر 2.50 لاکھ روپے سے 2.66 لاکھ روپے تک کی سبسڈی دی جاتی تھی، وہ تقریباً پورے ملک میں فی الحال نہیں دی جا رہی ہے۔
لیکن سب جگہ ایسا نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش میں آئندہ سال انتخاب ہے۔ وہاں ابھی دھن تیرس کے دن 4.51 لاکھ لوگوں کو وزیر اعظم نے ’گرہ پرویش‘ کی سوغات دی۔ جلسہ کا براہ راست نشریہ سبھی 23 ہزاروں پنچایتوں میں ہوا۔ ہر ضلع ہیڈکوارٹر پر شیوراج کابینہ کے رکن، بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ و اراکین اسمبلی، پارٹی کے لیڈران و کارکنان اور افسران موجود تھے۔ لیکن پروگرام کے دو دنوں بعد ہی اس منصوبہ میں بدعنوانی کی قلعی کھلنے لگی۔
جس ستنا میں سب سے بڑا جلسہ ہوا، وہاں دو دنوں بعد ہی منصوبہ میں گھوٹالہ سامنے آ گیا اور وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ سطح تک سے جانچ چل رہی ہے۔ یہاں گھر بنانے کے لیے رقم 2021 میں منظور کی گئی تھی۔ ضلع کی ناگود تحصیل کی سب سے بڑی پنچایت رہیکوارا میں 55 بے گھر غریب لوگوں کے لیے 1.20 لاکھ روپے فی گھر کے حساب سے 66 لاکھ روپے کی رقم منظور کی گئی۔ لیکن لوگ یہ شکایت کرتے ہوئے سامنے آئے کہ ’بچولیوں‘ نے رقم ہضم کر لی اور 55 استفادہ کنندگان کو رقم کا انتظار ہی رہا۔
گورے لال کے مطابق رقم ان کے اکاؤنٹ میں آنی تھی لیکن نہیں آئی، جب کہ کسی نے ان کی رقم بینک سے نکال لی۔ یہ سب تب ہے جبکہ پی ایم رہائش منصوبہ کے لیے جلسہ کے چار دن پہلے 18 اکتوبر کو عوامی سماعت میں کئی دیہی عوام نے ستنا کے کلکٹریٹ سے منظوری کے باوجود گھر ملنے والے استفادہ کنندگان کی فہرست میں ان کے نام نہیں ہونے کی شکایت کی تھی۔ اس سے پہلے دیواس میں لوک آیُکت پولیس نے بھی اس منصوبہ میں تین نگر پریشدوں- ستواس، لوہردا اور کانٹا پھوڑ میں کروڑوں روپے کی گڑبڑی کا انکشاف کیا تھا۔ پی ایم رہائش منصوبہ کے تحت دی جانے والی رقم دوسرے مدوں میں خرچ کر دی گئی۔
ویسے یہ نئی بات نہیں۔ مدھیہ پردیش کے ہی بیتول کے ڈلاریا گاؤں میں گزشتہ سال رہائش منصوبہ میں دی جانے والی مزدوری کی تقریباً 8 لاکھ روپے کی رقم فرضی لوگوں کے اکاؤنٹ میں ڈال دی گئی تھی۔ رقم ایسے لوگوں کے اکاؤنٹس میں ڈالی گئی جنھوں نے پی ایم رہائش منصوبہ میں کبھی کام ہی نہیں کیا تھا۔ ڈھائی سال تک جانچ کا مطالبہ کر کر کے تھک چکے دیہی عوام نے کورونا تیکہ کاری ٹیم کو گاؤں میں گھسنے نہیں دیا۔ تب وزیر اعظم نے ’من کی بات‘ پروگرام کے تحت جون 2021 میں ڈلاریا کے کچھ دیہی عوام سے بات کی تھی جس کا نشریہ 26 جون 2021 کو ہوا تھا۔ بعد میں افسران نے اس معاملے کو جیسے تیسے نمٹایا۔
سرکاری کام میں بدعنوانی کی شکایتیں ہمیشہ سے ظاہر ہیں۔ اس لیے سرکار نے استفادہ کنندگان کا انتخاب ایجنسیوں اور پنچایتوں کے سروے کی بنیاد پر کرنے اور پیسے سنٹر سے ہی استفادہ کنندگان کے اکاؤنٹس میں بھیجنے کا انتظام کیا۔ لیکن سرکار نے چیک اینڈ بیلنس کا انتظام نہیں کیا اس لیے گھوٹالے باز راستہ نکالتے رہے۔
اسے اتر پردیش میں بدایوں کے معاملے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’سمپورن سمادھان دیوس‘ پر کوڑا کڑیا گاؤں کے ویدرام نے ضلع مجسٹریٹ دیپا رنجن کو بتایا کہ ان کا نام پی ایم رہائش کے استفادہ کنندگان کی فہرست میں ہے اور ویب سائٹ پر ان کی رہائش کو مکمل بتایا جا رہا ہے، جب کہ وہ اب بھی جھونپڑی میں رہ رہے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ حیران ہو گئیں اور انھوں نے جانچ کا حکم دیا، لیکن ہوا کچھ نہیں۔
پریاگ راج میں تو جولائی ماہ میں 140 مہلوکین کے نام سے پی ایم رہائش کے الاٹمنٹ کا فرضی واڑا سامنے آ چکا ہے۔ علاوہ ازیں 455 نااہلوں کو اس منصوبہ کا فائدہ دیا گیا۔ ضلع مجسٹریٹ کی ہدایت پر 114 گرام پردھانوں اور 78 سکریٹری کو نوٹس جاری ہوا، لیکن یہاں بھی کچھ نہیں ہوا۔
وزیر اعلیٰ کے شہر گورکھپور میں بدعنوانی کے معاملہ کا خود راجیہ سبھا رکن ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال انکشاف کر چکے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ نے ایک آڈیو وائرل کیا تھا جس میں پی ایم رہائش سے استفادہ کرنے والا سرویئر کے ذریعہ رشوت لینے کی بات کہہ رہا ہے۔ گورکھپور میں بی جے پی لیڈر راجو سنگھ نے ضلع مجسٹریٹ کو ایسے 60 لوگوں کی فہرست دی جن کے نام قسط جاری ہو گئی لیکن ایک بھی اینٹ نہیں رکھی گئی۔ بی جے پی لیڈر کہتے ہیں کہ ’’وزیر اعلیٰ سے لے کر ضلع مجسٹریٹ تک شکایت کے بعد بھی جانچ فائلوں میں دبی ہے۔‘‘
یوپی کے وزیر مہندر سنگھ خود مان چکے ہیں کہ ریاست میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو غلط طریقے سے فنڈ کا فائدہ ملا۔ ان میں سے تقریباً 86 ہزار نے مقدمے کے خوف سے فنڈ لوٹایا ہے۔ اس سے صاف ہے کہ فرضی وارے اور بدعنوانی کی باتیں سرکار خود مانتی ہے۔
گورکھپور میں 5 سال میں 15 سرویئر برخواست ہوئے۔ سہارنپور میں سابق رکن اسمبلی راجیو گمبر 25 ہزار رشوت مانگنے والے سرویئر کے خلاف مقدمہ درج کرا چکے ہیں۔ مہوبہ میں تو رشوت کی رقم ملنے پر استفادہ کنندگان کے اکاؤنٹ میں تین کی جگہ چار قسطیں بھیج دی گئیں۔ معاملہ کھلا تو ڈوڈا نے 79 لاکھ کے غبن میں 11 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ وزیر اعطم مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں اراجی لائن بلاک کے پریجن پور گاؤں میں ملتے جلتے نام والوں کے اکاؤنٹ میں روپے بھیجے جانے پر گرام پردھان اور گرام پنچایت افسر کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔