اب ایک نیا اور زمین زادوں کا خطہ ابھرے گا

فلسطینیوں نے عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک نیا نقش چھوڑ دیا ہے جسے آج 8 ماہ گزر جانے کے باوجود مغربی دنیا کی حکومتیں مٹانے سے قاصر ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر نواب علی اختر</p></div>

تصویر نواب علی اختر

user

نواب علی اختر

انسان ظاہری وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دیتا ہے۔ جس قدر وسائل ہیں اسی قدر اقدامات کیے جاتے ہیں۔ دنیا میں بہت بار ایسا ہوا کہ ظاہری اسباب و وسائل ہار گئے اور جنہیں دنیا مجنون کہہ رہی تھی وہ جیت گئے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ چشم تصور میں خود کو غزہ میں فرض کریں، جہاں پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ناکہ بندی جاری ہے۔ یہ ناکہ بندی صرف زمینی نہیں ہے بلکہ سمندر اور ہوا بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں ۔ زمینی راستے سے نام نہاد مسلمان ممالک وہی چیزیں غزہ میں داخل ہونے دیتے ہیں جس کی اجازت اسرائیل اور امریکہ سے آتی ہے۔

ایسے میں کچھ دیوانے آزادی کا خواب دیکھتے ہیں، مزاحمت کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے سر پر کفن باندھ کر نکل پڑتے ہیں۔ دنیا بھر کی قوتیں ان کے خلاف جمع ہو چکی ہیں، محض 40 کلومیٹر کی اوپن جیل پچھلے 8 ماہ سے کلیئر نہیں ہو رہی۔ صہیونی غلط فہمی کا شکار ہو کر شیروں کی کچار میں گھستے ہیں کہ اب ہم نے انہیں آگ و بارود سے جلا دیا ہے۔ اب آگے بڑھ کر اپنے قیدی چھڑا لیتے ہیں۔ جاتے اپنی مرضی سے ہیں مگر پتہ چلتا ہے کہ کچھ گرفتار کر لیے گئے ہیں اور باقی کی لاشیں اہل قدس کے قبضے میں ہیں۔ اتنے عرصے بعد بھی چنگاری بجھی نہیں بلکہ پوری قوت سے شعلہ بننے کو بے تاب ہے۔


سات اکتوبر سے پہلے کی دنیا کا مشاہدہ کیا جائے تو بہت سی ایسی نشانیاں اور مشاہدات سامنے آتے ہیں جس میں واضح ہوتا ہے کہ مغربی استعماری حکومتیں ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیاء میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کے لیے یہاں معاشی، سیاسی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھیں۔ اسی دوران 7 اکتوبر کو فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے لیے ایک ایسا طوفان شروع کیا جسے طوفان الاقصیٰ کہا جاتا ہے کہ جس نے ایک طرف اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا اور خطے میں سیاسی منظر نامہ اور منفی سازشوں کو بروئے کار لانے سے دور کر دیا تو دوسری جانب پوری مغربی دنیا کی حکومتوں کے نئے منصوبے اور نقشوں کو برباد کر کے رکھ دیا۔

یہی وجہ تھی کہ سات اکتوبر کے بعد امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں کھلم کھلا غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کی پشت پناہی کے لیے سرگرم ہو گئیں اور تاحال غاصب اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں تاکہ ان کے اپنے منصوبہ کو تحفظ حاصل ہو سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ نے امریکہ اور مغربی حکومتوں کے ان تمام ناپاک عزائم اور منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے جو ایشیائی ممالک بالخصوص ایشیاء میں مسلمان ممالک کے خلاف تیار کیے گئے تھے۔ فلسطینیوں نے عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک نیا نقش چھوڑ دیا ہے جسے آج 8 ماہ گزر جانے کے باوجود مغربی دنیا کی حکومتیں مٹانے سے قاصر ہیں۔


نہیں معلوم کہ طوفان الاقصیٰ شروع کرنے والے یہ بات جانتے تھے کہ دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کے لیے امریکی اور مغربی حکومتوں کے عزائم کیا ہیں ؟ لیکن واقعی فلسطینیوں نے اہم اور بہت بڑا کام انجام دیا یعنی طوفان الاقصیٰ کہ جس نے مغربی حکومتوں کے منصوبوں کو برباد کر دیا ہے۔ مغربی دنیا میں عوام کی بیداری کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں طلباء اور اساتذہ کی بیداری بھی طوفان اقصیٰ کے نتائج کا حصہ ہے۔ اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب شامل ہو رہے ہیں، یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کر رہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔

اکتوبر 2023 میں جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ نے حسبِ معمول اپنی مکمل حمایت اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں اگر کسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔ صدر جو بائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ میں بھی صہیونی ہوں۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ صہیونی کون ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عہد نامہ قدیم کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین میں واپس آ کر آباد ہونا یہودیوں کا حق ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ہر یہودی ضروری نہیں کہ صہیونی ہو۔ عیسائیوں میں صہیونیوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ فلسطین، شام، لبنان، مصر اور عراق میں عیسائی کافی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور ان میں شاید ہی کوئی صہیونی ہو۔


غزہ کی جنگ کے اثرات سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکی سیاست میں بھی لرزا طاری ہے۔ اب امریکہ میں صرف مسلم یا عرب ہی فلسطینی حقوق کے حامی نہیں بلکہ یہ ہمدردی اب سفید فام امریکیوں کے کچھ حلقوں میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے عنوان سے بیداری دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا کی تمام اقوام فلسطینی پرچم تھام کر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو اپنے لیے باعث افتخار اور عزت قرار دے رہی ہیں۔ آج مغربی ممالک کی حکومتیں اس بات پر سوچ بچار کر رہی ہیں کہ آئندہ آنے والے انتخابات میں عوام ان کو ووٹ دیں گے یا نہیں ؟ یہ سوال اس وقت نہ صرف مغربی حکومتوں کے لیے بلکہ دنیا کی تمام حکومتوں کے لیے اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ فلسطین کی صورتحال نے پوری دنیا کی صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ مغربی قوتوں نے خطے میں اپنی طویل عرصے تک بالادستی کے لئے جو منصوبے بنائے تھے ،فلسطینی ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئے، فلسطینیوں نے اپنے پیاروں کی قربانی دینا گوارہ کیا مگر اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے اور اپنے موقف اور جدوجہد پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ فلسطینی استقامت کا نتیجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے ہم خیال جو تاریخی اعتبار سے ہمیشہ غاصب صیہونی حکومت کے مدد گار اور سرپرست رہے ہیں، کی حکومتوں کے عہدیداروں کے مابین یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ہمیں مستقبل میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی حمایت کرنی ہے ؟ یا یہ کہ ہم اس حمایت سے دستبرداری کر لیں؟


یقیناً یہ ایک ایسا انقلاب ہے کہ جس نے دنیا کے لیے امریکی و مغربی حکومتوں کے بنائے گئے تمام منصوبوں کو غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکی حکومت کی سالوں کی محنت کو فلسطینیوں کے طوفان اقصیٰ نے چند گھنٹوں میں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، یہی فلسطینی عوام کی کامیابی ہے۔ اس جنگ نے دنیا کی سیاسی اور سماجی اقدار کو بھی بے نقاب کیا ہے، اس سے پتہ چلا ہے کہ عام آدمی ظلم و جبر کو برداشت نہیں کرتا وہ اس کے خلاف ہوتا ہے، یہ حکمران ہوتے ہیں جو مفادات کے اسیر بن کر بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ اس جنگ نے خود فلسطینی اور اسرائیلی معاشروں پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اس سے مسلم طاقت کو فائدہ پہنچا ہے اور مغربی قوت کی طاقت و اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا متھ بھی ٹوٹا ہے۔

آپ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کو دیکھیں نوجوانوں کی بڑی تعداد اسلام کی طرف مائل ہوئی ہے۔ مغرب میں مسلمانوں کی تیسری نسل نے اہل فلسطین کے لیے اپنا مستقبل اور کاروبار داو پر لگا کر مسلمان ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ ان نوجوانوں کے ساتھ غیر مسلم نوجوان بھی اسلام کے قریب ہوئے ہیں۔ تمام سروے بتا رہے کہ یورپ اور امریکہ میں لوگ صیہونیت کے اصل چہرے سے آشنا ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر لوگ اب صہیونی نظریے سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ اہل غزہ کی اس مزاحمت نے بین الاقوامی سیاست کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اس مزاحمت نے مشرق وسطی کے امریکی ورلڈ آڈر کو برباد کر دیا ہے۔ اب ایک نیا اور زمین زادوں کا خطہ ابھرے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔