میرا روڈ کشیدگی: کیا یہ فرقہ واریت سے زیادہ امیر-غریب کی جنگ ہے، بلڈوزر کارروائی نے بگاڑے حالات!
ممبئی سے ملحق میرا روڈ پر 22 جنوری کی شام ہوئی لڑائی اب فرقہ واریت کی جگہ امیر-غریب کی لڑائی پر مشتمل ایشو بنتا جا رہا ہے، لیکن عموماً پرامن رہنے والے اس علاقہ میں فی الحال کشیدگی تو پیدا ہو ہی گئی ہے
ایودھیا میں رام للا کی پران پرتشٹھا سے قبل ممبئی واقع میرا روڈ پر ہوئی لڑائی نے اب فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد امیر-غریب کی لڑائی کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔ میرا روڈ پر ہوئے تصادم کے ایک دن بعد مہاراشٹر میں بلڈوزر کلچر کی بھی انٹر ہو گئی اور میرا روڈ پر کئی دکانوں کو یہ کہہ کر منہدم کر دیا گیا کہ یہ تجاوزات (ناجائز قبضہ) تھے اور بغیر اجازت کے بنائے گئے تھے۔ لیکن ٹھانے ضلع کے دیگر علاقوں میں بھی بلڈوزر کی گڑگڑاہٹ سنائی دے رہی ہے جہاں کئی ہندو دکانداروں کی دکانیں بھی بلڈوزر کی زد میں آئی ہیں۔
ٹھانے ضلع کے مسلم اکثریتی ممبرا علاقہ سے این سی پی کے تیز طرار رکن اسمبلی جتیندر اوہاڈ بھی اس معاملے میں کود پڑے ہیں، اور انھوں نے کہا ہے کہ یہ امیر و غریب کی لڑائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’بنگلوں اور عالیشان اپارٹمنٹس میں رہنے والے امیر لوگ ایسے تصادم کو اکساتے ہیں اور بلڈوزر چلواتے ہیں تاکہ ان کے بنگلوں کے لیے مزید زمین مل سکے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان سب میں غریب ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم بھگوان رام کو مریادا پرشوتم کہتے ہیں، لیکن رام بھکتوں نے سبھی حدیں طاق پر رکھ کر پران پرتشٹھا کے دن علاقے میں گڑبڑی کرنے کی کوشش کی۔‘‘
اس دوران میرا روڈ سے مل رہیں اطلاعات کی بنیاد پر بتایا جا رہا ہے کہ اس علاقے کو خاص طور سے نشانے پر لیا گیا ہے، کیونکہ یہاں پہلے کبھی فرقہ وارانہ کشیدگی دیکھنے کو نہیں ملی، اور اسے ایک سیکولر علاقہ مانا جاتا رہا ہے۔ غالباً پورے مہاراشٹر مین تنہا میرا روڈ ایسا علاقہ ہے جہاں شمشان اور قبرستان ایک ہی مدیان پر ہے۔ اسے 1990 کی دہائی میں بنایا گیا تھا جب بابری مسجد انہدام کے بعد فسادات بھڑک اٹھے تھے۔ لیکن میرا روڈ پر اُس وقت حالات پرامن رہے تھے۔ اس وقت یہاں کے میئر کانگریس کے مظفر حسین تھے۔
مظفر حسین نے ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا جو ’تھری-اِن وَن شانتی استھل‘ یعنی قبرستان، شمشان اور سیمٹری کا مینجمنٹ دیکھتا ہے۔ اس کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ جو لوگ اپنی زندگی میں امن سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، وہ بعد از مرگ بھی سکون سے ایک جگہ آرام کر سکتے ہیں۔ ایسے کئی مواقع آئے جب لوگوں کو دوسرے قبرستان یا سیمٹری میں جگہ نہیں ملی تو انھیں یہاں جگہ دی گئی ہے۔ میرا روڈ کے امن میں اس قدم کا بھی بڑا تعاون ہے۔
لیکن کوئی 8 سال پہلے اس پرامن بقائے باہمی کو چیلنج ملا تھا جب جین طبقہ نے ایشو اٹھایا تھا کہ جین جشن کے دوران مسلمانوں کو گوشت کی دکانیں بند رکھنی چاہئیں۔ اس کے بعد سے ہندوتوا طاقتوں نے ہر موقع پر کچھ نہ کچھ گڑبڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔
میرا روڈ پر ہندو، مسلم اور عیسائیوں کی تقریباً یکساں آبادی ہے اور وہ بغیر کسی دقت کے ایک ساتھ سالوں سے رہ رہے ہیں۔ اس علاقے میں جو بھی جرائم ہوتا ہے وہ گینگ وار وغیرہ سے جڑا ہوتا ہے، لیکن اب گینگ بھی مذہبی بنیاد پر تقسیم ہو چکے ہیں۔
میرا روڈ پر تین دن قبل ہوئے تشدد کے بارے میں چشم دید لوگوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ ہنگامہ کر رہے تھے وہ پہلے سے ہی پتھر وغیرہ لے کر آئے تھے اور انھوں نے مسلمانوں کی دکانوں پر پتھراؤ کیا۔ ان کے نشانے پر وہ دکانیں تھیں جن پر بھگوا جھنڈا نہیں لگا تھا۔ ان میں کچھ دکانیں ہندوؤں کی بھی تھیں جنھوں نے ایسا جھنڈا نہیں لگایا تھا۔
ایسے میں جب اگلے دن مبینہ رام بھکت علاقے میں واپس آئے تو دکانداروں نے ان کا جواب دیا، جس کے بعد حالات فرقہ وارانہ فسادات جیسے بن گئے۔ خوش قسمتی سے اس معاملے میں کسی کی جان نہیں گئی۔ پولیس نے واقعہ کو لے کر 19 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ لیکن مہاراشٹر کی بھگوا حکومت نے اگلے ہی دن یہاں بلڈوزر بھیج کر اپنی منشا ظاہر کر دی ہے۔ اس کارروائی میں ایسی دکانیں بھی منہدم کر دی گئیں جو تقریباً دو دہائی سے علاقے میں چل رہی تھیں۔
اب اس معاملے میں اے آئی ایم آئی ایم بھی کود پڑی ہے۔ اس کے مہاراشٹر سے واحد رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل نے کہا ہے کہ میرا روڈ پر ہنگامہ بی جے پی کے ذریعہ مراٹھا ریزرویشن سے توجہ بھٹکانے کی کوشش ہے۔ انھوں نے اسے شندے حکومت کی سازش قرار دیا ہے۔ جلیل نے کہا کہ مراٹھا ریزرویشن تحریک کے لیڈر جرانگے ممبئی کی طرف محاذ لے کر آ رہے ہیں، ایسے میں شندے حکومت انھیں ڈرانا چاہتی ہے۔
میرا روڈ کی کشیدگی کو لے کر امن کمیٹی کی میٹنگ بھی ہوئی ہے تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ لیکن اس دوران مراٹھا ریزرویشن کے مطالبہ والا مارچ ممبئی کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگر میرا روڈ معاملے نے امیر-غریب کی لڑائی والا رنگ اختیار کر لیا تو شندے حکومت کے لیے مزید مصیبتیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔