پی ایم مودی کے وعدے کو ایک سال گزر گیا، لیکن آوارہ مویشیوں سے لوگ اب بھی پریشان!
گزشتہ سال 20 فروری کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ وہ سڑکوں پر گھوم رہے آوارہ مویشیوں کو لے کر ایسا حل نکالیں گے کہ ہر کوئی انھیں اپنے یہاں باندھنا شروع کر دے گا، لیکن اب تک کچھ ہوا نہیں۔
اتر پردیش میں والدین اور گھر والوں سے بچھڑے لوگوں کے یے تیار پناہ گاہوں، چائلڈ ہوم یا رین بسیروں سے زیادہ گئوشالائیں ہیں۔ سلاٹر ہاؤس اور مویشیوں کو ایک سے دوسری جگہ لے جانے پر پابندی ہے۔ مبینہ گئو رکشک ٹرکوں اور چھوٹا ہاتھی کہے جانے والی گاڑیوں کی چوکسی کرتے ہیں اور ان پر گائے-بیل دیکھا نہیں کہ ڈرائیور-ہیلپر سے بغیر زیادہ جانکاری لیے پیٹ پیٹ کر انھیں مار تک ڈالتے ہیں۔
ایسی پرتشدد چوکسی کے خطروں کی وجہ سے مویشی پالنے والے کسان بوڑھے اور دودھ نہ دینے والے مویشیوں کو سڑکوں پر چھوڑ دینے کے لیے مجبور ہیں۔ یہ مویسی کھیت میں لگی فصلوں کو کھانے سے زیادہ روندتے ہیں اور گزر رہے لوگوں پر حملہ کر انھیں زخمی کر دیتے ہیں۔ تفریح کے نام پر سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ان سے متعلق بیشتر ویڈیوز اتر پردیش اور گجرات کے ہوتے ہیں، لیکن وہ زیادہ تر ’دردناک‘ ہی لگتی ہیں۔ دکانداروں یا گھروں کے باہر لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمرے کے ان فوٹیج میں آوارہ مویشی لوگوں کو دوڑاتے، گراتے، سینگوں سے پٹخنی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اب بیلوں، بچھڑوں و بھینسوں کا کھیتی کسانی میں کوئی استعمال تو رہ نہیں گیا ہے۔ دودھ نہ دینے والی گایوں و بھینسوں کو بوجھ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ لوگ ایسے مویشیوں کو کھونٹے سے نہیں باندھتے بلکہ سڑکوں پر چھوڑ دیتے ہیں اور جب وہ کھیت کھانے لگتے ہیں تو رات کی تاریکی میں خاموشی سے اپنے گاؤں سے لاد کر دوسرے گاؤں میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسے آوارہ مویشیوں سے عاجز کسان کسی مقامی اسکول کمپاؤنڈ یا بلاک دفتر میں انھیں بند کر دیتے ہیں۔ ہندی اور گجراتی اخبارات میں ایسی خبریں اکثر شائع بھی ہوتی رہتی ہیں کہ ٹھنڈ کے دنوں میں ان مویشیوں کو کھیتوں سے بھگانے کے لیے رکھوالی کرنے والے کسان کی موت ہو گئی۔ انھیں بھگانے کے دوران کچھ کسان سنگین طور سے زخمی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کی کوئی سرکاری تعداد کہیں دستیاب نہیں ہے کہ آوارہ مویشیوں کی وجہ سے کتنے لوگوں کی موت ہو گئی یا کتنے زخمی ہو گئے، کتنی فصل تباہ ہو گئی، کیا معاوضہ دیا گیا، کسی آوارہ مویشی کو انجانے میں یا قصداً مار ڈالنے کی وجہ سے کتنے کسانوں پر معاملہ درج کیا گیا؟
رواں ماہ کے شروع میں صدف آفرین نے ایک ویڈیو کلپ ٹوئٹ کیا تھا۔ اس کلپ کی صداقت تو ممکن نہیں ہو پائی، لیکن بتایا گیا ہے کہ یہ یوپی میں گونڈا کے طرب گنج واقع سیجیا گاؤں کے کسان بدری نشاد اور ایس ڈی ایم کے درمیان فون پر ہوئی بات چیت کی ریکارڈنگ ہے۔ اس بات چیت کے کچھ اہم حصے اس طرح ہیں:
بدری نشاد بول رہا ہوں سر، سیجیا طرب گنج سے۔ سر، ایس ڈی ایم صاحب بول رہے ہیں آپ؟
ہاں، ہاں۔
سر، آج میں اتنا بے بس ہوں کہ میں بچ گیا ہوں کسی رطیقے سے۔ وہ تو الگ ہے لیکن اگر میرے کھیت کی حفاظت اور میری جان کی حفاظت نہیں ہوئی تو میں آج کسی بھی قیمت پر بجلی کا تار پکڑوں گا۔
کیا ہوا، آپ بتاؤ تو صحیح؟
سر، پوری رات آپ آ کر جانچ کر سکتے ہیں، میں کس طریقے سے اپنی کھیتی کی رکھوالی کرتا ہوں۔ اور پوری رات اتنا جانور میرا پورا کھیت کھا گیا۔ آپ بتا دیجیے، یا تو میری ایف آئی آر کروا دیجیے (سسکتے ہوئے) یوگی کے اوپر، اکھلیش کے اوپر، رکن پارلیمنٹ و رکن اسمبلی کے اوپر۔ میں ایف آئی آر کرنا چاہتا ہوں، یا تو میں آج مرنا چاہتا ہوں۔
آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم دیکھ لیتے ہیں۔ ایف آئی آر بھی آپ کی ہو جائے گی۔
سر، آپ جب کہیے میں آؤں ایف آئی آر کرنے کے لیے۔ میں یوگی کے اوپر، اور اکھلیش کے اوپر، مایاوتی کے اوپر۔ یہی لوگ، جب ڈیبیٹ کرتے ہیں لوگ، سر، تو ڈیبیٹ میں کام نہیں ہوتا۔ اور ہم کسانوں کو، آج میں مر گیا ہوتا۔ جس طریقے سے جانور میرے ہی کھیت میں چر رہا ہے اور مجھے ہی مارنے دوڑ رہا تھا۔
جانور کسی کو پہچانتا تھوڑے ہی ہے!
تو جانور نہیں پہچانتا، تو سر، یہی لوگوں نے تو یہاں پر اعتراض داخل کر دیا۔ ابھی ہم مار دیں تو آپ ہمارے اوپر کارروائی کروائیں گے۔ ہمارے اوپر رپورٹ درج کروائیں گے، اگر میں مار دوں تو۔
آپ سنو، میری بات مانو۔ آپ پریشان نہ ہو۔ جو بھی کارروائی آپ چاہتے ہو، ہوگی۔ بس، آپ پریشان مت ہو۔
تو یہی کارروائی ہے کہ میری جان چلی جائے، بس۔ کارروائی ہو جائے گی۔ میرا پوسٹ مارٹم ہوگا، لکھا پڑھی ہو جائے گی، بس، یہی ہوگا سر۔
ارے نہیں۔ آپ اتنا نروس نہ ہوئیے۔ اتنا پریشان مت ہوئیے۔
اس سے زیادہ کچھ نہیں ہونے والا۔ میں بے بس، مجبور آدمی ہوں۔ میرا کھیت چر گیا۔ میں آگے چل کر کیا کروں گا۔ کھیتی کے سوا میرا کچھ ہے نہیں۔
کون سا گاو۷ں ہے، سیجیا؟
سیجیا گاؤں ہے، سیجیا۔
اچھا۔
پہلے سے میں قرض لے رکھا ہوں۔ وہاں جو ہے، تالاب پر کسی طریقے سے جی رہا تھا۔ وہ تالاب ہے جو پانی آیا اتنی باڑھ۔ سب مچھلی میری بہہ گئی۔ میں ایپلی کیشن دیتا رہ گیا، یہاں تک کہ گرام پردھان، سکریٹری اور بی ڈی او سے مل کر اس تالاب کو سندری کرن (درستگی) نہیں کروائے۔ وہ میں جھیل رہا ہوں۔ وہاں تو بینک والا میرے اوپر نوٹس کاٹ رہا ہے۔ یہاں کھیتی میرا سہارا تھا۔
نہیں پتہ کہ ایس ڈی ایم نے کیا کارروائی کی؟ بدری نشاد نے آگے کیا قدم اٹھایا، یہ بھی نہیں پتہ۔
بدری نشاد نے یوپی اسمبلی انتخابی تشہیر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی کہی باتیں یا تو سنی نہیں، یا پھر انھیں اس کی یاد نہیں۔ کیونکہ اس بات چیت میں انھوں نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ مودی نے ایک سال پہلے 20 فرروی کو اناؤ کے کسی انتخابی جلسہ مین آوارہ مویشیوں کے ایشو پر اپنے انداز میں کسانوں کو بھروسہ دیا تھا۔ تب پی ایم نے کہا تھا کہ ’’انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کی وجہ سے وہ منصوبہ کا انکشاف تو نہیں کر سکتے، لیکن آپ لوگوں کو چھُٹّا جانوروں سے جو پریشانی ہوتی ہے، اسے دور کرنے کے لیے 10 مارچ کے بعد نئے انتظامات کیے جائیں گے۔ میرے یہ لفظ لکھ کر رکھیے، یہ مودی بول رہا ہے، اور آپ کے آشیرواد کے ساتھ بول رہا ہے۔ جو مویشی دودھ نہیں دیتا ہے، اس کے گوبر سے بھی آمدنی ہو، ایسا انتظام میں آپ کے سامنے کروں گا۔ اور ایک دن ایسا آئے گا کہ آوارہ مویشی جو ہیں، اس کے بارے میں لوگوں کو لگے گا کہ گھر میں اس کو باندھ لو، اس سے بھی کمائی ہونے والی ہے۔‘‘
یوگی حکومت 2.0 کے ایک سال پورے ہونے کو ہے لیکن حالات پہلے والے ہی ہیں۔ کسانوں کو تو چھوڑیے، ڈیری والوں (چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے) کی بھی گوبر سے تو کمائی نہیں ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس ستمبر 2022 میں نالیوں میں گوبر بہا دینے کے الزام میں 12 چھوٹی ڈیریوں پر جرمانہ لگا دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتہی ناتھ کے شہر گورکھپور میں ایک ڈیری پر اسی طرح کے الزام میں پانچ لاکھ کا جرمانہ لگا دیا گیا۔
اتر پردیش مویشی پروری محکمہ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر (گئو دھن ڈیولپمنٹ) ڈاکٹر راجیش کمار کی دلیل ہے کہ کسان مویشیوں کو سڑک پر چھوڑنا بند کر دیں گے تو مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ گزشتہ دنوں مویشی پروری اور ڈیری محکمہ نے 20ویں مویشی شماری کی جو رپورٹ جاری کی، اس کے مطابق ملک میں بے سہارا گھومنے والے مویشیوں کے معاملے میں یوپی ملک میں دوسرے مقام پر ہے۔ یہاں دھماچوکڑی مچا رہے آوارہ مویشیوں کی تعداد 11.80 لاکھ ہے۔ ہر گاؤں میں ان کی تعداد 18 سے 20 ہے۔ ڈاکٹر کا سوال ہے کہ ’’گاؤں والے ان کی دیکھ ریکھ کیوں نہیں کر سکتے جبکہ اس کے لیے انھیں روزانہ گھاس کی 80-70 ٹوکریوں کا انتظام بھر کرنا ہوگا۔‘‘
کانگریس سے منسلک پریم لتا چترویدی کہتی ہیں کہ ’’اس میں دو رائے نہیں کہ یوگی حکومت نے 2017 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے گئوشالاؤں اور عارضی پناہ گاہوں پر 1100 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ لیکن یہ پیسہ نہ تو کسانوں کے پاس پہنچ رہا ہے، نہ ہی مویشیوں کو کھلانے پر خرچ ہو رہا ہے۔ بدعنوان بچولیے گایوں کے چارے کا پیسہ کھا رہے ہیں۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 6187 ’گئو آشرے کیندر‘ یوپی کے شہری اور دیہی علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔ ان میں 838015 مویشیوں کو رکھا گیا ہے۔ حکومت آوارہ مویشیوں کی اندازہ تعداد 11.80 لاکھ بتاتی ہے، جبکہ دیگر لوگ ان کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ بتاتے ہیں۔ ریاست کے وزیر برائے مویشی و دودھ دھرمپال سنگھ نے 9 فروری کو سنبھل میں کہا کہ اگر کوئی صنعت کار گائے کی پرورش کرنا چاہتا ہے تو اسے حکومت کی طرف سے 30 ایکڑ زمین 40 سال کے لیے لیز پر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ انھیں 5000 گائے بھی مفت دی جائے گی۔ ساتھ ہی حکومت کسانوں سے دو روپے فی کلو کی شرح سے گائے کا گوبر خریدے گی۔
دھرمپال کے بتائے منصوبہ کی تفصیل تو سامنے نہیں آئی ہے، لیکن حکومت ’گئو وَنش سہبھاگیتا یوجنا‘ کے تحت زیادہ سے زیادہ چار آوارہ گائیں کسانوں کو دیتی ہے۔ اس کے عوض میں حکومت کسان کو روزانہ فی گائے 30 روپے خوراکی کے حساب سے ادا کرتی ہے۔ ادائیگی کی دشواریوں اور کمیشن خوری کے کھیل کی وجہ سے ریاست میں بمشکل 1.31 لاکھ گائیں ہی کسانوں کے ذریعہ پالی جا رہی ہیں۔
منصوبہ کے تحت ادائیگی کو لے کر دقتوں کو اناؤ کے سرائیں گاؤں کے کسان چندر کمار کی دشواریوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ منصوبہ کے تحت 6 فروری 2020 سے ایک گائے اور ایک بیل کی پرورش کر رہے ہیں۔ چارہ کے لیے رقم حاصل کرنے کے مقصد سے مہینوں دوڑنے کے بعد وزیر اعلیٰ پورٹل پر 8 بار لگاتار شکایت کرنے کے بعد 20ویں مہینے میں اکاؤنٹ میں 30720 روپے کی ادائیگی ہوئی جب کہ اتنے دنوں کا 36000 روپے ہوتا ہے۔ ایک بار پھر پیمنٹ رکا ہوا ہے۔
بستی میں چارو گاؤں کے کسان موتی لال کا کہنا ہے کہ 30 روپے میں ایک گائے کا چارہ ممکن نہیں ہے۔ روزانہ ایک گائے کے کھانے پر 70 سے 80 روپے کا خرچ آتا ہے۔ پانچ سال پہلے جو گیہوں کا بھوسا 5 سے 6 روپے کلو تھا، آج اس کی قیمت 13 روپے کلو ہو گئی۔ چوکر کی جو بوری 500 روپے کی آتی تھی، اب وہ 1300 روپے تک پہنچ چکی ہے۔
یوپی حکومت بے روزگاروں کو روزگار دینے کے ’گئو پالک یوجنا‘ بھی چلا رہی ہے۔ کم از کم پانچ گائے رکھنے والوں کو ’گئو پالن‘ کے لیے بینک کے ذریعہ 9 لاکھ روپے کا قرض مہیا کرایا جا رہا ہے۔ سدھارتھ نگر ضلع کے ڈمریا گنج باشندہ سجیت شریواستو کا کہنا ہے کہ سبھی اہلیت پوری کرنے کے بعد بینک سے قرض نہیں ملا۔ سرکاری منصوبوں میں کاغذوں میں جتنا فائدہ دکھایا جا رہا ہے، اس کا ایک فیصد بھی زمین پر نہیں ہے۔
دوسری طرف بلدیات کے ماتحت چلنے والا ’کانہا اُپون‘ منصوبہ ہو یا پھر ضلع پنچایت یا گرام پنچایت کے ماتحت چلنے والا ’گئو آشرے استھل‘، سبھی کا حال برا ہے۔ گورکھپور کے دو ’گئو آشرے‘ کا انتظام و انصرام ’دھیان فاؤنڈیشن‘ دیکھ رہا ہے۔ کھجنی کے ہریہر پور اور گولا کے گاجیگہڑا کے ’آشرے استھل‘ میں 1500 سے زیادہ مویشیوں کا برا حال ہے۔ گزشتہ جنوری مین حکومت کے اسپیشل سکریٹری راجیش کمار پانڈے نے گئو شالاؤں کا جائزہ لیا تو خامیاں ہی خامیاں ملیں۔ فاؤنڈیشن کے ذریعہ بھوسا اور چوکر کی جگہ پر گنے کی چنی اور بیئر ویسٹ کھلایا جا رہا تھا۔ نوٹس کے بعد بھی وہاں کے حالات میں بہتری نہیں ہوئی ہے۔
(رام شرومنی شکلا کے ساتھ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔