ایگزٹ پول اور شیئر بازار کی قدم تال میں کتنا ہے ’دال میں کالا‘، کیوں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بن گئے اسٹاک بروکر؟

ہمیشہ کی طرح سیبی اس معاملے میں بھی خاموش ہے، جس قسم کا ماحول شیئر بازار نے دیکھا اس پر تو سیبی کے کان فوراً کھڑے ہو جانے چاہیے تھے اور وزارت مالیات کو بھی کچھ بولنا تھا، لیکن سرکاری سطح پر سناٹا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>شیئر مارکیٹ اور ایگزٹ پول کا رشتہ</p></div>

شیئر مارکیٹ اور ایگزٹ پول کا رشتہ

user

اتم سین گپتا

گزشتہ ہفتہ راہل گاندھی نے سوال اٹھایا کہ کیا اب وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ سرمایہ کاروں کو مشورہ دیں گے کہ کب شیئر بازار میں پیسہ لگایا جائے؟ وزیر اعظم نے 19 اپریل کو ایک چینل سے بات چیت میں کہا تھا کہ 4 جون کو شیئر بازار میں اُچھال آئے گا۔ ایک ہفتہ بعد انھوں نے پھر یہی بات کہی۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی کہا کہ 4 جون سے پہلے خرید لو، بازار ریکارڈ بنائے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ 4 جون کو ووٹوں کی گنتی کے درمیان شیئر بازار دھڑام سے گر گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بازار سے سرمایہ کاروں کے 30 لاکھ کروڑ روپے خاک میں مل گئے۔

یاد کیجیے، ہنڈن برگ نے گزشتہ سال اڈانی گروپ پر شیئر بازار کو متاثر کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تو کیا اب وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی ایسا ہی نہیں کیا ہے! دونوں ہی اب خاموش ہیں کہ آخر انھوں نے ایسا کہا کیوں تھا۔ یہ سبھی کو پتہ ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ شیئرس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لیکن ووٹوں کی گنتی سے پہلے یہ مشورہ دینا کہ خریداری کر لیں، حیرت انگیز ہے۔


کانگریس سے منسلک پروین چکرورتی نے ’ڈکن ہیرالڈ‘ کے لیے لکھے ایک مضمون میں سمجھایا ہے کہ کس طرح 31 مئی کو مشتبہ طریقے سے نیشنل اسٹاک ایکسچینج میں دوگنا کاروبار ہوا۔ اس سے قبل 16 مئی 2014 کو ایسا ہوا تھا جب نریندر مودی کی قیادت میں پہلی بار بی جے پی کو مکمل اکثریت ملی تھی۔ سوال ہے کہ آخر 31 مئی کو دوگنا کاروبار کیسے ہو گیا؟ ایک ویڈیو میں پروین چکرورتی نے نشان زد کیا ہے کہ 30 مئی کو این ایس ای میں مجموعی کاروبار 1.1 لاکھ کروڑ کا ہوا تھا، لیکن 31 مئی کو مجموعی کاروبار 2.3 لاکھ کروڑ پہنچ گیا۔

ماہرین اس بات سے حیران ہیں کہ 31 مئی کو کوئی ایسی خبر یا واقعہ نہیں ہوا تھا کہ بازار میں اتنا ڈرامائی بدلاؤ ہوتا۔ ویسے تو ذاتی طور پر کیا گیا کاروبار ذاتی ہوتا ہے، لیکن این ایس ای اس کا حساب کتاب رکھتا ہے اور خوردہ سرمایہ کاروں یا کہیں کہ عام لوگوں کے لیے اسے جاری کرتا ہے۔ یہ چھوٹے سرمایہ کاروں، میوچوئل فنڈ اور گھریلو تنظیمی سرمایہ کاروں کے لیے کافی اہم ہوتا ہے۔


اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 31 مئی کو ہوئے کاروبار میں 58 فیصد کاروبار غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ذریعہ کیا گیا۔ غیر ملکی سرمایہ کار موٹے طور پر وہ لوگ یا گروپ ہیں جو ماریشس اور کیمین آئس لینڈ جیسی ’ٹیکس ہیون‘ جگہوں پر بیٹھے ہیں اور ان کی پہچان پوری طرح کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتی۔ ان کے لین دین کا پتہ لگنا مشکل ہے اور یہ نہیں معلوم ہو پاتا ہے کہ وہ کس کے کہنے پر کاروبار کر رہے ہیں۔ تو پھر ایسا کیا تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اچانک ہندوستانی شیئرس میں 31 مئی کو اتنی دلچسپی ہو گئی؟

یقینی طور سے غیر ملکی سرمایہ کار ہی دراصل ہندوستانی بازار میں 31 مئی سے پہلے بکوالی کر رہے تھے۔ وہ اپنا پیسہ نکال رہے تھے کہ اچانک کچھ انجان سے غیر ملکی سرمایہ کار بازار میں 31 مئی کو خریداری کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ آخر کیوں؟ چکرورتی مانتے ہیں کہ اس میں ایک ہی ممکنہ فارمولہ ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگلے دن ایگزٹ پول آنے والے تھے جن میں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کو زبردست اکثریت ملتی ہوئی دکھائی جانی تھی۔ ایکسس مائی انڈیا نے این ڈی اے کے لیے 361 سے 401 سیٹوں کا اندازہ لگایا تھا، تو سی این ایکس نے 371 کا۔ ٹوڈیز چانکیہ نے 400 سیٹیں دی تھیں، تو نیوز 18 نے 370، جبکہ ریپبلک-پی ایم اے آر کیو نے 359 سیٹوں کی پیشین گوئی کی تھی۔ ان سبھی میں یکسانیت واضح تھی۔


یکم جون کو ہفتہ کی شام آخری رمحلہ کی ووٹنگ ختم ہوئی تھی۔ اگلے دن ویکینڈ (چھٹی کا دن) کے سبب بازار بند تھا اور جب ووٹ شماری سے ایک دن قبل 3 جون (پیر) کو بازار کھلا تو چھپڑ پھاڑ کر ریکارڈ اونچائی پر پہنچ گیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے جن شیئرس میں 31 مئی کو پیسے لگائے تھے، وہ آسمان چھونے لگے اور موٹا منافع کمایا گیا۔ بی جے پی کو سرمایہ کاروں کے تئیں دوستانہ اور کارپوریٹ حامی مانا جاتا ہے اور یہ حیرت انگیز نہیں تھا کہ بازار ایگزٹ پول کے نتیجوں سے بہت خوش تھا۔

لیکن 4 جون کو جب ووٹوں کی اصل گنتی کے ساتھ نتائج سامنے آنے لگے اور بی جے پی کا قلعہ ایک ایک کر کئی ریاستوں میں منہدم ہونے لگا، یعنی وہ لوک سبھا میں اپنی طاقت پر اکثریت سے دور ہوتا گیا تو بازار پہلے حیران ہوا، اور پھر بری طرح افرا تفری کا شکار ہو گیا۔ غریبوں کی حامی اور سماجوادی سوچ والے انڈیا بلاک کے اقتدار میں آنے کا امکان بننے لگا تو بازار میں مایوسی کا ماحول پھیل گیا اور ریکارڈ گراوٹ درج ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سرمایہ کاروں کے 30 لاکھ کروڑ روپے خاک میں مل گئے۔ مانا جا رہا ہے کہ خوردہ سرمایہ کاروں، گھریلو تنظیمی سرمایہ کاروں، میوچوئل فنڈ، بینک اور دیگر لوگوں نے ایک ہی دن میں 3300 کروڑ روپے کے شیئر فروخت کر دیے۔ ایک ہی دن میں شیئر بازار میں ہوا یہ تاریخی نقصان تھا۔ ڈیریویٹو ٹریڈنگ میں بھی اتھل پتھل درج کی گئی جس میں پروین چکرورتی کے مطابق اُچھال اور گراوٹ دونوں کے ہی دوران منافع وصولی ہوتی ہے۔


پورے معاملے پر ہمیشہ کی طرح سیبی (سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا) خاموش ہے۔ جس قسم کا ماحول شیئر بازار نے دیکھا، اس پر تو سیبی کے کان فوراً کھڑے ہونے چاہیے تھے، اور وزارت مالیات کو بھی کچھ بولنا چاہیے تھا، لیکن جیسا کہ چکرورتی نے اسے نام دیا ہے کہ ’ایگزٹ پول اسٹاک مارکیٹ اسکیم‘ پر سرکاری سطح پر سناٹا ہے۔

چکرورتی نے اشاروں میں یہ بھی کہا ہے کہ جب اوپینین پول میں چھیڑ چھاڑ کر انتخاب جیتنے کے الزامات میں آسٹریلیا کے چانسلر کو استعفیٰ دینا پڑا تھا، تو کیا ہندوستان میں جو کچھ ہوا کیا وہ محض اتفاق ہے۔ لیکن وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر وہ کون سے غیر ملکی سرمایہ کار تھے جنھوں نے بازار میں یہ سب کیا۔ کیا انھیں پہلے سے ایگزٹ پول کے نتائج کی جانکاری تھی۔ کس کے اشارے پر صرف ایک ہی دن میں 6800 کروڑ روپے انھوں نے لگا دیے؟ کسے اس کا فائدہ ملا اور کس نے نقصان اٹھایا؟


مرکزی وزیر پیوش گویل نے تو اپنے بیان سے معاملے کو مزید پیچیدہ کر دیا تھا کہ شیئر بازار میں گھوٹالہ کا الزام ایک سازش کا حصہ ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ دراصل بازار کی اس اٹھا پٹخ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو نقصان ہوا، جبکہ ہندوستانی خوردہ سرمایہ کار فائدے میں رہے۔

اگر یہ سب درست ہے تو حکومت کو پورے معاملے کی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) سے جانچ کرانے کا مطالبہ قبول کر لینا چاہیے۔ سامنے آ جائے گا کہ ایگزٹ پول کرنے والے اور ٹی وی چینلوں کے مالکان کی اس میں کوئی ملی بھگت تھی یا نہیں۔ جے پی سی سے یہ بھی سامنے آ جائے گا کہ ایگزٹ پول کس طرح ہو رہے ہیں اور کیا کوئی اندازہ لگانے کے لیے سروے ٹیمیں باقاعدہ ووٹرس تک جاتی بھی ہیں یا نہیں۔


اب چونکہ لوک سبھا میں مضبوط اپوزیشن سامنے ہے، ایسے میں حکومت کو ایسے کسی بھی مطالبے کو یوں ہی ٹال دینا مشکل ہوگا اور جون کے پہلے ہفتہ میں صرف دو دن کے اندر جو کچھ ہوا اس پر صفائی دینی ہوگی۔ یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ کیا ایگزٹ پول کو ایک اسلحہ کی طرح استعمال کیا گیا؟

لیکن سی این بی سی کی سابق اینکر متالی مکھرجی نے جیسا کہ ’دی وائر‘ پر شائع ایک مضمون میں کہا ہے کہ ’’آخری الفاظ تو سیبی کے ہی ہونے چاہئیں۔ اگر الیکشن کمیشن کے تینوں کمشنر پر لاپتہ ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، تو سیبی پر بھی گمشدہ ہونے کا الزام ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’شاید یہ موقع ہے جب سیبی کو اپنا اصل کردار یاد کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ یہ سوچنا بھی ہوگا کہ وہ کس کے مفادات کی حفاظت کے لیے ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔