بہار میں رام نومی جلوس کے دوران مدرسہ عزیزیہ کو نہیں بلکہ 100 سالہ تاریخ کو نذرِ آتش کیا گیا
مدرسہ میں بنے کلاس روم کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا، اس کے ساتھ ہی پنکھے اور بجلی کے تار سمیت سب کچھ تباہ ہو چکے ہیں، شرپسندوں نے مدرسہ کی دیوار کو منہدم کرنے کی بھی کوشش کی۔
بہار کی راجدھانی پٹنہ سے تقریباً 70 کلو میٹر دور موجودہ نالندہ ضلع کے بہار شریف میں رام نومی کے دوران ہوئے تشدد نے ہر کسی کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بہار شریف کی آبادی تقریباً 3.5 لاکھ مانی جاتی ہے جس میں مسلم آبادی 30 سے 35 فیصد ہے۔ رام نومی کی ’شوبھا یاترا‘ کے دوران بہار شریف میں پیدا تشدد میں ایک کی موت اور کئی زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ لاکھوں روپے کی ملکیت اور دکانیں جل کر خاک ہو چکی ہیں۔
میڈیا میں آ رہیں ویڈیوز میں جلی ہوئی دکانیں، گودام اور گھر سے چھپ کر باہر کی طرف جھانک رہے لوگوں کو دیکھ کر شہر میں پھیلی دہشت محسوس کی جا سکتی تھی۔ یہاں کی ویران سڑکیں کووڈ-19 کے دوران لگے لاک ڈاؤن کی یاد دلا رہی تھیں، لیکن کثیر پولیس اور پیرا ملٹری کی فورسز اور ان کی گاڑیوں سے وہاں کے دردناک منظر اور حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
اس تشدد کے دوران 100 سال سے زیادہ پرانے ’مدرسہ عزیزیہ‘ کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس نفرت کی آگ میں محض ایک مدرسہ ہی نہیں جلا بلکہ 100 سال سے زیادہ پرانی تاریخ کو خاک میں ملانے کی کوشش کی گئی۔ مدرسہ عزیزیہ کی لائبریری کو بھی جلا دیا گیا، جس میں بتایا جا رہا ہے کہ 4500 سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔
مدرسہ عزیزیہ میں ہوئی توڑ پھوڑ اور آگ زنی کی تصویریں سوشل میڈیا میں سامنے آ چکی ہیں۔ مدرسہ میں بچوں کے پڑھنے کے لیے بنے کلاس روم کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پنکھے اور بجلی کے تار سمیت سب کچھ تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد شرپسندوں نے مدرسہ کی دیوار کو منہدم کرنے کی کوشش کی۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے مقامی وکیل محمد سرفراز ملک نے بتایا کہ اس میں عربی اور فارسی کی کئی بیش قیمتی کتابیں موجود تھیں جو خاکستر ہو چکی ہیں۔ اس میں سینکڑوں سال قدیم کئی نایاب کتابیں بھی تھیں۔
’دی ہندو‘ میں شائع خبر کے مطابق مسجد کے امام اور مدرسہ کے کیئر ٹیکر محمد سیاب الدین نے کہا کہ تقریباً 1000 لوگوں کی مسلح بھیڑ نے بہار شریف کے مرارپور علاقے میں مدرسہ عزیزیہ میں توڑ پھوڑ کی اور اس کی لائبریری میں آگ لگا دی۔ انھوں نے یہ بھی جانکاری دی کہ 4500 سے زائد کتابوں کا ذخیرہ رکھنے والی 110 سال قدیم لائبریری اس حملے میں راکھ ہو گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسجد کی مینار متاثر ہو گئی تھی اور ضلع انتظامیہ اس کی مرمت کرا رہی ہے۔
وکیل محمد سرفراز نے اس خوفناک منظر کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے جمعہ کی نماز پوری کی ہی تھی کہ ہوٹل سٹی پیلیس کے پاس گگن دیوان علاقے میں تشدد بھڑک اٹھا۔ اس کے بعد بھیڑ مدرسے میں گھس گئی اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ مسجد کی امن کمیٹی کے ایک رکن کو ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے لیے کہا گیا۔ انھوں نے مسجد اور لائبریری میں پٹرول بم پھینکے اور احاطہ میں کھڑی گاڑیوں میں آگ لگا دی۔‘‘
واضح رہے کہ مدرسہ عزیزیہ کا قیام 1910 میں ہوا تھا اور یہ وقف بورڈ/مدرسہ بورڈ کے ذریعہ منظور شدہ تھا۔ 1920 میں مدرسہ بورڈ کی شروعات بہار کے پہلے وزیر تعلیم سید فخر الدین نے کای تو مدرسہ عزیزیہ بھی ایک سرکاری مدرسہ ہو گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مدرسہ عزیزیہ میں صغریٰ وقف اسٹیٹ کا بھی دخل رہا کیونکہ اس مدرسہ کو بہار کی سب سے ہمدرد اور عطیہ دہندہ بی بی صغریٰ نے اپنے شوہر عبدالعزیز کی یاد میں کھولا تھا۔ اس لیے اس کا نام مدرسہ عزیزیہ پڑا۔
مدرسہ عزیزیہ سے نکلے طالب علم پورے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نالندہ اور بہار شریف کے آس پاس کے علاقوں میں مدرسہ عزیزیہ ایک قابل قدر تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہاں قرآن، حدیث اور دینی تعلیم کے علاوہ ہندی، انگریزی، اردو، جغرافیہ وغیرہ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ مدرسہ عزیزیہ صرف ایک مدرسہ نہیں بلکہ یہ ایک جدید اسکول کی مانند جدید مدرسہ ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق مدرسہ عزیزیہ میں 10 اساتذہ اور 2 غیر تدریسی ملازم حکومت کی طرف سے دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں 5 اساتذہ کو صغریٰ وقف اسٹیٹ کی طرف سے تنخواہ ملتی تھی۔ یہاں تقریباً 500 بچے پڑھائی کرتے ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔ مدرسہ میں درجہ اوّل سے درجہ فاضل تک کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ مدرسہ عزیزیہ کے سکریٹری ’زی نیوز‘ سے اس پورے واقعہ کو نالندہ یونیورسٹی سے جوڑتے ہوئے کہا کہ جس طرح کبھی نالندہ یونیورسٹی کے ساتھ ہوا تھا، اس کی دوسری شکل مدرسہ عزیزیہ کے ساتھ دیکھنے کو ملی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔