الیکشن کمشنروں کے انتخاب پر سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ... سراج نقوی

آئینی بنچ کے اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پر یقین سے ابھی کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اس میں بہرحال کوئی شک نہیں کہ بنچ کا فیصلہ اقتدار پر قابض رہنے کی حکمرانوں کی خواہش کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

سراج نقوی

الیکشن کمشنروں کی تقرری کے لیے کالیجیم جیسا کوئی نظام نافذ کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضیوں پر عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ یہ الگ بات کہ بیشتر معاملوں میں خود کو آئین اور قانون سمجھنے والے حکمراں عدالت کے اس فیصلے پر کس حد تک عمل کرتے ہیں اور اس سے الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار بنانے میں کس حد تک مدد ملتی ہے!

موجودہ حکمرانوں نے جس طرح مختلف آئینی و قانونی اداروں کو اپنا حاشیہ بردار بنانے اور ان کے ذریعہ اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوششیں کی ہیں وہ سب پر عیاں ہیں۔ عدلیہ، گورنروں اور الیکشن کمیشن پر آئے دن ہونے والے منفی تبصرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ جمہوریت کا وقار سمجھے جانے والے ان عہدوں پر ایسے افراد کو لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو آئین سے زیادہ حکومت کے وفادار ہوں۔ مختلف ریاستوں میں تعینات کیے گئے گورنروں میں سے ان گورنروں کے فیصلوں پر اگر ایک سرسری نگاہ ڈالیں جو اپوزیشن پارٹیوں کے اقتدار والی ریاستوں میں تعینات ہیں تو آسانی سے یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ اس پروقار عہدے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو آئین کے محافظ سے زیادہ مرکزی اقتدار کی کٹھ پتلی بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ یہی معاملہ چند مستثنات کے ساتھ عدلیہ کا بھی ہے اور اس میں تنقید کے نشانے پر سپریم کورٹ میں جسٹس رہے ایسے ’یور آنر‘ بھی ہیں جنہوں نے ریٹائر منٹ کے بعد حکمرانوں سے ملنے والے فائدوں کے لیے کئی ایسے فیصلے سنائے جن میں جانبداری کے اشارے نظر آتے ہیں۔


خود بی جے پی کے سابق رہنما اور مرکزی وزیر رہے آنجہانی ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ ’’ایک جج کو سبکدوشی کے بعد کوئی بھی سرکاری عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ اب ان کی ہی پارٹی ایک کے بعد ایک سپریم کورٹ کے ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف عہدوں سے نواز چکی ہے۔ چند روز قبل ایک پروگرام میں بولتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج نے بھی کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ججوں کے ذریعہ سرکاری عہدے قبول کرنے سے عدل و انصاف کے تصور کو نقصان پہنچتا ہے۔ مودی حکومت میں کابینہ کے ایک سینئیر وزیر نتن گڈکری بھی ماضی میں اسی موقف کا اظہار کر چکے ہیں لیکن صورتحال کیا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ البتّہ ان تمام باتوں کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے اور ملک کے عام آدمی کے لیے باعث راحت ہے کہ سپریم کورٹ نے اب بھی حکومت کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ہے۔ مذکورہ چند معاملوں کو مستثنات مانا جا سکتا ہے۔

تیسرا اہم آئینی ادارہ جس پر قبضہ کرنے کے لیے موجودہ حکمرانوں نے اپنی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ الیکشن کمیشن ہے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ الیکشن کمیشن کو پابند اقتدار بنانے کی کوششیں نئی نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کی حکومتوں پر بھی یہ الزام لگتا رہا ہے کہ ایسے معاملوں میں ان کا بھی دامن داغدار رہا ہے۔ البتہ اب ان کوششوں میں شدت آ گئی ہے اور الیکشن کمیشن کے بے شمار فیصلے ایسے ہیں کہ جن میں حکومتِ وقت کی جانبداری کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور اس کے آئینی اختیارات پر جب بھی بات ہوتی ہے تو سابق چیف الیکشن کمشنر آنجہانی ٹی این شیشن کو ضرور یاد کیا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے بے خوف، دو ٹوک اور غیر جانبدارانہ رویے سے ایوان اقتدار میں زلزلہ پیدا کر دیا تھا۔ موجودہ وقت میں ملک کی جمہوریت کے تحفظ اور منصفانہ و غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنروں کی تقرری کے لیے ایسا نظام وضع کیا جائے جیسا کہ فی الحال ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں کالیجیم نظام ہے، تاکہ الیکشن کمیشن کی خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔


 اسی مقصد کے تحت سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں زیر سماعت تھیں۔ اب سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ الیکشن کمیشن کے وقار کی بحالی میں مددگار ہو سکتا ہے بشرطیکہ حکمراں جماعت کو اس بات کا پابند بنایا جا سکے کہ وہ اس پر عمل کرے۔

پانچ ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے جس کے سربراہ جسٹس کے ایم جوزف تھے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اب چیف الیکشن کمشنر اور باقی دو الیکشن کمشنروں کی تقرری ایک ایسی کمیٹی کرے گی جس میں وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی شامل ہوں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تکنیکی بنیادوں کا سہارا لیکر مرکزی حکومت نے لوک سبھا میں کسی بھی پارٹی کے لیڈر کو اپوزیشن لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اسی لیے آئینی بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کو ہی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ’’ہم اعلان کرتے ہیں کہ جہاں تک چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کے عہدوں پر تقرری کی بات ہے تو یہ ہندوستان کے وزیر اعظم، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر، ایسا کوئی لیڈر نہ ہونے کی صورت میں لوک سبھا میں تعداد کے اعتبار سے اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر اور ہندوستان کے چیف جسٹس والی کمیٹی کی صلاح پر ہندوستان کے صدر جمہوریہ کے ذریعہ کی جائیگی۔‘‘ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ نظام اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ (اس سلسلے میں) قانون نہیں بنا دیا جاتا۔


واضح رہے کہ اس معاملے پر آئین کی شق 324(2) میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کی تقرری صدر جمہوریہ کے ذریعہ مرکزی کابینہ کی مدد اور صلاح سے کی جائیگی، تاوقتیکہ پارلیمنٹ اس کے انتخاب اور خدمات کے اصولوں و مدت کار کے لیے کوئی ضابطہ طے کرنے والا قانون نہیں بناتی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کی آزادی کے 75 سال گزرنے کے باوجود پارلیمنٹ اس معاملے میں کوئی قانون بنانے میں ناکام رہی ہے اور اس کا بظاہر سبب یہی ہے کہ ہر برسر اقتدار پارٹی اقتدار کو کسی بھی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتی۔ اسی لیے سپریم کورٹ کو اس معاملے میں ایک ایسا نظام طے کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا جو حکمرانوں کو اقتدار سے چپٹے رہنے کی ان کی خواہش سے الگ اور خود مختار طریقے سے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے میں حتی الامکان مددگار ثابت ہو سکے۔ بنچ کے مذکورہ ججوں میں سے ایک جج جسٹس اجے رستوگی نے یہ رائے بھی پیش کی کہ چیف الیکشن کمشنر کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف جو تحفظ حاصل ہے اس کا نفاذ دیگر ارکان پر بھی ہو۔ ظاہر ہے یہ اس لیے ضروری ہے کہ کوئی حکومت کسی الیکشن کمشنر کو ناپسندیدگی کی صورت میں باہر کا راستہ نہ دکھا سکے۔ جسٹس رستوگی کا خیال تھا کہ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور خود مختاری بنائے رکھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ کمیشن کے معاملات میں عاملہ کی مداخلت کو روکا جا سکے۔ بنچ کے فاضل ججوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس معاملے میں قانون نہ لانے کے پس پشت سیاسی پارٹیوں کے پاس ایک سبب ہے جو دیکھنے میں واضح ہے اور وہ ہے ایک ’غلام کمیشن‘ کے توسط سے اقتدار میں بنے رہنے کی ایک ’نا آسودہ خواہش‘ ہے۔

بہرحال آئینی بنچ کے اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پر یقین سے ابھی کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اس میں بہرحال کوئی شک نہیں کہ بنچ کا فیصلہ اقتدار پر قابض رہنے کی حکمرانوں کی خواہش کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔

نوٹ: مضمون میں جو بھی رائے ہے وہ مضمون نگار کی ہے، ادارہ ’قومی آواز‘ کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔