ایران میں حجاب تنازع: شدت پسندی درست نہیں... سہیل انجم
مغربی طاقتیں مہسا امینی کی موت کی آڑ میں ایران کی مخالفت تو کر رہی ہیں لیکن ابوعاقلہ کے معاملے میں تیزی دکھانے سے قاصر ہیں۔ ان کا دوہرا رویہ پہلے بھی بے نقاب ہوا تھا اور اب ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے۔
آج کل ایران حجاب تنازع کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ حجاب مخالف پرتشدد احتجاج 80 سے زائد شہروں تک پھیل چکا ہے۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ پولیس کی جانب سے احتجاج کو سختی سے کچلنے کے نتیجے میں اب تک 35 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حجاب اور پردے کی مخالفت کرنے والی خواتین اپنے بال کٹوا کر اور حجاب اور دوپٹے نذر آتش کرکے حکومت کے خلاف اپنا غصہ نکال رہی ہیں۔ جبکہ صدر ابراہیم رئیسی نے سیکورٹی فورسز کو فیصلہ کن انداز میں مظاہروں سے نمٹنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی سیکورٹی فورسز کی جانب سے مزید طاقت کے استعمال کا امکان ہے۔ اس سے قبل 2019 میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ملک گیر سطح پر پرتشدد احتجاج ہوا تھا جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ احتجاج اس سے زیادہ سنگین ہے۔
یہ بھی پڑھیں : خوش ہو جائیے، چیتا آ گیا، سارے مسائل حل... سہیل انجم
سوال یہ ہے کہ اچانک حجاب اور پردے کی اتنی پرزور اور پرتشدد مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ اس کا جواب ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی پراسرار اور مشکوک موت میں پوشیدہ ہے۔ ایران میں اخلاقی پولیس کا بھی ایک شعبہ ہے جو اسلامی قوانین کے احترام اور ان کے نفاذ کا ذمہ دار ہے۔ اس پولیس کو مقامی زبان میں ”گشتِ ارشاد“ کہا جاتا ہے۔ اس کے ٹولے عوامی مقامات کا گشت کرتے رہتے ہیں اور جہاں کوئی اسلامی قوانین کے نفاذ کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا جاتا ہے اسے پکڑ کر یا تو پولیس تھانے میں لے جا کر دے دیتے ہیں یا اصلاحی مرکز میں ڈال دیتے ہیں جہاں ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور اسلامی قوانین کے نفاذ کی اہمیت سے واقف کرایا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک گشت کے دوران مہسا امینی پر پولیس کی نظر پڑی جس نے حجاب کو مناسب انداز میں نہیں پہنا تھا۔ یعنی اس کے بال پوری طرح ڈھکے ہوئے نہیں تھے۔ پولیس اسے پکڑ کر تھانے لے گئی جہاں وہ بیہوش ہو گئی اور دو تین روز کے اندر اسپتال میں اس کا انتقال ہو گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ کومہ میں چلی گئی تھی اور دل کا دورہ پڑنے سے اس کی موت ہوگئی۔ جبکہ اس کے اہل خانہ اور دوسرے لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس نے اس پر تشدد کیا۔ اس کے سر پر ضربیں لگائیں اور یہاں تک کہ جب اسے گاڑی میں بٹھایا گیا تو اس کا سر گاڑی سے ٹکرایا گیا۔ ان ضربوں کے نتیجے میں اس کو شدید چوٹیں آئیں اور پھر اس کی موت ہو گئی۔
مہسا کی موت کے بعد پرتشدد احتجاج شروع ہو گیا اور اس میں آزاد خیال مرد اور عورت کود پڑے۔ اس کی آڑمیں پردے کی بھی مخالفت کی جانے لگی۔ خواتین نے اپنے لمبے لمبے بال کٹوا کر ان کا جھنڈا بنا لیا اور انھیں لہرایا جانے لگا۔ کئی دنوں تک اس احتجاج کے بعد اسلامی قوانین کی حمایت اور پردے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت میں بھی احتجاج شروع ہو گیا۔ بعض طبقات کا خیال ہے کہ اس دوسرے احتجاج میں حکومت کا ہاتھ ہے۔ لیکن حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ از خود ہو رہا ہے اسے اس نے منظم نہیں کیا ہے۔ بہرحال دونوں قسم کے احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے اور ٹکراؤ کی صورت بنی ہوئی ہے۔
اس معاملے میں مغربی ملکوں نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور حجاب کی مخالفت کرنے والوں کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سختی سے قوانین کی پابندی ٹھیک نہیں ہے اور کسی کو اس کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کیا پہنے اور کیا نہ پہنے۔ اسی طرح مغربی میڈیا بھی اس معاملے میں کود پڑا ہے۔ وہ بھی ایرانی سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کی مخالفت اور حجاب مخالف طبقات کی حمایت کر رہا ہے۔ میڈیا میں اسے مرد اساس معاشرے کی اجارہ داری گردانا جا رہا ہے۔ حقوق نسواں کی تحریک چلانے والے اور انسانی حقوق کے علمبرادر بھی اس میں کود پڑے ہیں اور وہ خواتین کی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں۔ حالانکہ وہاں مردوں پر بھی پردے کی پابندی ہے۔ یعنی وہاں کوئی شخص نصف آستین کی قمیص نہیں پہن سکتا۔ ستر پوشی مردوں کے لیے بھی ضروری ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس معاملے میں دونوں طرف سے شدت پسندی نظر آرہی ہے۔ جہاں تک پردے اور حجاب کا تعلق ہے تو اگر ایران میں اس کا قانون ہے تو سب کو اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس پابندی کی خلاف ورزی کا مطلب ہوا قانون شکنی اور کوئی بھی حکومت خواہ کسی بھی ملک کی ہو قانون شکنی کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر قانون شکنی عام ہو جائے تو ملک میں نراج کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور حکومتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر مردوں اور عورتوں کے لیے پردے کا قانون ہے تو اس کی پابندی کی جانی چاہیے۔
اسی طرح اگر مہسا امینی کے سر کے بال کچھ نظر آرہے تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر تشدد کیا جاتا جیسا کہ الزام ہے۔ اس کو سمجھا بجھا کر حجاب کی پابندی کرائی جا سکتی تھی۔ اگر اخلاقی پولیس یا ریگولر پولیس نے اس پر تشدد کیا ہے تو اسے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جب اصلاحی مراکز قائم ہیں تو اسے ایسے کسی مرکز میں ڈالا جا سکتا تھا اور اگر اس کے خیالات مذہبی قوانین کے خلاف ہیں تو اس کی کونسلنگ کی جا سکتی تھی۔ بہرحال حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحقیقات کے نتیجے کا انتظار کیا جاتا۔ اگر اس میں پولیس کی زیادتی ثابت ہو جاتی تو پھر پولیس کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی۔ اس سے پہلے ہی ملک میں پرتشدد احتجاج برپا کر دینے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ایسا لگتا ہے کہ آزاد خیال افراد اور اسلامی قوانین کی مخالفت کرنے والوں کو ایک بہانہ مل گیا اور انھوں نے ملک میں ایک ایسی آگ لگا دی جس میں جانی و مالی دونوں طرح کا نقصان ہو رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ حکومت اور پولیس کو بھی تحمل سے کام لینا چاہیے۔ احتجاج کو کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں جانب سے شدت پسندی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ وہاں کی حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ مغربی طاقتیں ایران میں انقلاب کی مخالف ہیں۔ وہ ایران کو ہر حال میں کمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔ ایران کی ترقی ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں ایرانی حکومت کے رویے کی مخالفت کر رہی ہیں۔
اس معاملے کے تناظر میں ایک بار پھر مغربی طاقتوں کا دوہرا رویہ بے نقاب ہو گیا ہے۔ ایک طرف تو وہ مہسا امینی کی حمایت میں بول رہی ہیں اور دوسری طرف الجزیرہ چینل کی فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے وحشیانہ قتل پر خاموش ہیں۔ ابو عاقلہ فلسطین میں مقبوضہ مغربی کنارے جینن سے رپورٹنگ کر رہی تھیں کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی جانب سے ان کو نشانہ بنا کر فائرنگ کی گئی جس میں وہ ہلاک ہو گئیں۔ جب اس پر پوری دنیا میں ہنگامہ ہوا تو اسرائیل کی جانب سے اس قتل کا اعتراف کرنا پڑا۔ لیکن اس کا یہ اعتراف بھی لولا لنگڑا تھا۔
اسرائیل کی جانب سے اس واقعہ کی تحقیقات کے بعد بتایا گیا کہ فلسطینی مسلح جوانوں کی طرف سے اسرائیلی ڈیفنس فورسز پر ہلاکت خیز ہتھیاروں سے حملہ کیا جا رہا تھا جس کے جواب میں اسرائیلی جوانوں نے فائرنگ کی اور ممکن ہے کہ اس فائرنگ میں ابو عاقلہ نشانہ بن گئی ہوں۔ جبکہ الجزیرہ نے ویڈیو فوٹیج، گواہوں اور دیگر شہادتوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ اس وقت فلسطینیوں کی جانب سے فائرنگ کا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا تھا۔ سچائی یہ ہے کہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر ابو عاقلہ کو نشانہ بنایا اور جب گولی لگنے پر وہ گر گئیں تو ایک شہری ان کو بچانے کے لیے دوڑ پڑا۔ لیکن اسرائیلی فورسز نے اس پر بھی فائرنگ کی۔ وہ جب بھی ابو عاقلہ کی جانب بڑھتا ادھر سے فائرنگ شروع کر دی جاتی۔
مغربی طاقتیں مہسا امینی کی موت کی آڑ میں ایران کی مخالفت تو کر رہی ہیں لیکن وہ ابو عاقلہ کے معاملے میں اتنی تیزی دکھانے سے قاصر ہیں۔ ان کا دوہرا رویہ پہلے بھی بے نقاب ہوا تھا اور اب ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے۔ بہرحال ایران میں چل رہے مظاہروں کے دوران دونوں جانب سے تحمل کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ بہرحال اسلام میں انسانی جان کی حفاظت کو مقدم قرار دیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ وہاں کی حکومت اور مظاہرین دونوں اس بات کو سمجھیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔