خوش ہو جائیے، چیتا آ گیا، سارے مسائل حل... سہیل انجم

گویا اب حکومت یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ کئی تیروں کو آزمانے کی ضرورت ہے تاکہ چوطرفہ مار کی جا سکے۔ چیتا لانے کی مہم اس معاملے میں ایک خاص رنگ بھرنے کے لیے تھی۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

سہیل انجم

موجودہ حکومت کسی بھی معاملے کو ایک بہت بڑے ایونٹ میں بدلنے اور مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اور اس کی مدد کرتا ہے گودی میڈیا۔ مودی حکومت گودی میڈیا کو کوئی نہ کوئی ایشو تھماتی رہتی ہے اور میڈیا اس کا بھونپو بجاتا رہتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے نیوز چینلوں پر چیتا چھایا ہوا ہے۔ ایسا لگا کہ جوں ہی چیتا سرزمین ہند پر قدم رکھے گا تمام مسائل چھو منتر ہو جائیں گے۔ میڈیا کو اسی بہانے وزیر اعظم نریندر مودی کی قصیدہ خوانی کا بھی ایک اور موقع مل گیا اور اس نے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایسی ایسی سرخیاں جمائیں کہ کوئی بھی غیرت مند شخص شرما جائے۔ پلاننگ یہ کی گئی کہ وزیر اعظم کے 72 ویں یوم پیدائش پر یعنی 17 ستمبر کو چیتا جنگلوں میں چھوڑیں جائیں گے۔ تاکہ اسی بہانے دنیا میں اور خاص طور پر ہندوستان میں یہ پیغام جائے کہ ایک شیر نے ہندوستان سے ناپید ہو گئی چیتوں کی نسل کو آباد کر دیا ہے۔ 70 سال میں کوئی دوسرا وزیر اعظم یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکا۔

خود وزیر اعظم مودی نے اسے ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا۔ انھوں نے ایک شکاری کا بھیس دھارن کیا اور خاص طور پر بنائے گئے پنجرے کا لیور چلا کر کھولا اور شیر یوں باہر آیا جیسے اس سے قبل کوئی شیر پنجرے سے باہر نہیں آیا تھا۔ مودی نے سر پر شکاریوں والی ہیٹ پہن رکھی تھی اور انھوں نے ایک پیشہ ور کیمرے سے تصاویر بھی اتاریں۔ وزیر اعظم مودی نے اس کام کا سہرا اپنے سر باندھا۔ حالانکہ سابقہ یو پی اے حکومت نے 2009 میں ہی چیتا پروجکٹ شروع کیا تھا۔ اس وقت کے وزیر جنگلات جے رام رمیش اس سلسلے میں نمیبیا گئے بھی تھے اور چیتا ہندوستان لانے کے سلسلے میں تیاریاں کی گئی تھیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے 2013 میں اس پروجکٹ پر پابندی لگا دی تھی جس کی وجہ سے یہ کام ٹھپ ہو گیا تھا۔ اس نے 2020 میں پابندی ہٹائی اور اس کے بعد حکومت نے اس پروجکٹ پر کام کیا۔ لیکن جیسا کہ اس حکومت کا ریکارڈ رہا ہے کہ یہ دوسروں کے کاموں کا کریڈٹ خود لے لیتی ہے، اس پروجکٹ کا بھی کریڈٹ اس نے خود لے لیا۔

اس نے اس موقع کو ایک بہت بڑے تماشے میں بدل دیا۔ یہاں تک کہ ایئرفورس کے جس مال بردار طیارے سے نمیبیا سے چیتوں کو لایا گیا اس کے اگلے حصے کو شیر کے منہ کی شکل میں پینٹ کیا گیا۔ کئی روز پہلے سے ہی میڈیا میں اس کا ہنگامہ کھڑا کروایا گیا اور 17 ستمبر کو تو جیسے دنیا میں اس کے علاوہ کوئی خبر ہی نہیں تھی صرف یہی خبر تھی اور یہ خبر عالمی پیمانے کی تھی کہ اگر نیوز چینل اس کو کور نہیں کریں گے تو یہ ان کی بہت بڑی پیشہ ورانہ ناکامی ہوگی۔

حالانکہ پورا ملک جانتا ہے کہ یہ تماشہ کیوں کیا گیا۔ ابھی چند روز قبل مودی حکومت کے ایک بہت بڑے بھکت بابا رام دیو نے ایک بیان میں کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کی ستائش کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی اس یاترا کو نیشنل میڈیا میں خوب جگہ مل رہی ہے۔ مبصرین ان کے اس بیان کے بارے میں دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ لالہ رام دیو کو بدلتی ہوئی ہوا کا احساس ہو گیا ہے اور اسی لیے وہ راہل گاندھی کی تعریف کر رہے ہیں۔ ادھر حکومت کو یہ فکر ستانے لگی ہے کہ کہیں راہل کی پد یاترا ملک کا سیاسی ماحول ہی نہ بدل دے اسی لیے جہاں بہت سے ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں وہیں چیتوں کا تماشہ بھی کیا گیا۔ کیا یہ ضروری تھا کہ وزیر اعظم ہی چیتوں کو پارک میں چھوڑتے۔ یہ کام تو محکمہ جنگلات کا کوئی بھی افسر کر سکتا تھا۔ لیکن اس کا مقصد اس بہانے میڈیا کی توجہ راہل گاندھی کی یاترا سے دوسری طرف مبذول کرانا تھا۔ اسی لیے مودی جی نے خود یہ نیک کام کیا اور گودی میڈیا نے فرماں بردار اور سعادت مند اولاد کی مانند اس کی تشہیر کی۔

ملک کے سنجیدہ طبقات سوال کر رہے ہیں کہ کیا چیتوں کے ہندوستان میں آنے سے یہاں کے تمام مسائل حل ہو گئے۔ بے روزگاری ختم ہو گئی۔ مہنگائی قابو میں آگئی۔ بھوکوں کو کھانا ملنے لگا۔ غریبوں کا پیٹ بھرنے لگا۔ پٹرول سستا ہو گیا۔ گیس کی قیمت کم ہو گئی۔ ملک میں اب کوئی بے روزگار نہیں رہ گیا۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو سنجیدہ طبقہ پوچھ رہا ہے۔ لیکن حکومت کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ پہلے بھی نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔ یہ حکومت عوام کے کسی سوال کا جواب کہاں دیتی ہے۔ اسے اپنے کام سے کام ہے۔ عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حکومت چلتی رہے چاہے اس کے لیے عوام کو مذہب کے نام پر بانٹنا ہی کیوں نہ پڑے۔

اب یہی دیکھیے کہ بابری مسجد کا تنازع ختم ہوا تو گیان واپی مسجد کا تنازع پیدا کر دیا گیا۔ اب اس تنازعے کو اتنی ہوا دی جائے گی کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات تک موسم خوب گرم ہو جائے۔ پورا ملک اس کی آنچ میں تپ اٹھے اور پھر ہندو مسلم کرکے اکثریتی طبقے کا ووٹ حاصل کر لیا جائے۔ اسی لیے نئے نئے مقدمات قائم کرائے جا رہے ہیں۔ بی جے پی، آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں عوام از خود کارروائی کر رہے ہیں۔ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں۔ گیان واپی کے ساتھ ساتھ متھرا کی شاہی عیدگاہ کے معاملے کو بھی گرم کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ دیگر مساجد کو بھی تنازعات میں الجھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ غرضیکہ ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ عوام خود بخود دو حصوں میں بٹ جائیں اور حکومت اس کا سیاسی فائدہ اٹھا لے۔ انگریزوں کی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی موجودہ حکومت نے بھی اختیار کر رکھی ہے۔

گویا اب حکومت یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ کئی تیروں کو آزمانے کی ضرورت ہے تاکہ چوطرفہ مار کی جا سکے۔ چیتا لانے کی مہم اس معاملے میں ایک خاص رنگ بھرنے کے لیے تھی۔ دراصل جس طرح راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا مقبول ہو رہی ہے اس سے حکومت بوکھلا اٹھی ہے اور وہ اسی ہڑبڑاہٹ میں یکے بعد دیگرے اقدامات کر رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت عوام کو یہ بتانے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ اب چیتا آگیا ہے اب سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔