گجرات اسمبلی انتخابات: بی جے پی خود بھی سمجھ رہی ہے کہ اسے کن مشکلات کا سامنا ہے
گجرات میں وزیر اعظم نریندر مودی کو جس طرح انتخابی مہم چلانی پڑ رہی ہے اور امت شاہ نے جس طرح احمدآباد میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، اس سے صورت حال سمجھ میں آ جاتی ہے۔
گجرات کے موربی میں 30 اکتوبر کو پیش آنے والے معلق پل کے حادثے پر ہائی کورٹ میں 14 نومبر کو سماعت متوقع ہے، اس معاملہ میں ریاستی حکومت کی طرف سے حلف نامہ دائر کیا گیا ہے۔ اس حادثے میں 55 بچوں سمیت 135 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ گجرات ہائی کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اخبار میں شائع خبروں کو ہی عرضی میں تبدیل کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں، عدالت عالیہ میں جان گنوانے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دو منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں : گجراتی بھائیوں جوش نہیں ہوش میں ووٹ ڈالو... ظفر آغا
بی جے پی اور گجراتی میڈیا نے اس حادثے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور کچھ ہی لوگوں کو لگتا ہے کہ اس حادثے کا آئندہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر پڑے گا۔ بی جے پی 1986 سے موربی میونسپلٹی پر قابض ہے، سوائے درمیان کے دو سالوں کے جب کانگریس اقتدار میں تھی۔ ریاستی حکومت نے میونسپلٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو معطل کر دیا ہے اور موربی سے اپنے ایم ایل اے کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ اس سے پہلے کانگریس میں تھے اور پارٹی بدل کر بی جے پی میں آ گئے تھے۔ حکومت نے حادثے کی تحقیقات کے لیے ایک ایس آئی ٹی اور ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور بی جے پی کو امید ہے کہ ہائی کورٹ ان اقدامات کو کافی سمجھے گی۔
لیکن ان کے لیے اس سوال کا جواب دینا مشکل ہو سکتا ہے کہ مفرور صنعت کار جے سکھ پٹیل کو اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ ان کی کمپنی ’اجنتا مینوفیکچرنگ کمپنی‘ کو اس جھولتے پل کی مرمت اور دیکھ بھال کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ ایک بااثر صنعت کار پٹیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کو بہت بڑا عطیہ دیتے رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے اختتام سے قبل ان کی گرفتاری کے امکانات کم ہیں۔
لیکن صنعتکاروں سے زیادہ وہ افسران مجرمانہ طور پر اس حادثے کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے بغیر ٹینڈر طلب کیے پل کی مرمت کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دے دیا جسے اس نوعیت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان رپورٹس پر ابھی تک کوئی تسلی بخش وضاحت نہیں کی گئی ہے، اگرچہ پل کی مرمت کے لیے کمپنی کو 2 کروڑ روپے دیئے گئے تھے لیکن ایک ذیلی ٹھیکیدار نے اس پر صرف 12 لاکھ روپے ہی خرچ کیے۔ ذیلی ٹھیکیدار نے اس میں ایلومینیم کی چادریں ڈال دیں لیکن 140 سال پرانے کیبل کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور محفوظ قرار دیتے ہوئے ماہرین کی رائے طلب کئے بغیر اس پل کو کھول دیا گیا۔ اگر ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران سخت سوالات کیے اور ریاستی حکومت کو سخت اقدامات کرنے کی ہدایت دی تو موربی حادثہ کا سایہ انتخابات پر ضرور پڑے گا۔
گجرات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت، ریاست کے صنعت کاروں اور تاجر برادری کی بی جے پی کو زبردست حمایت، بیوروکریسی اور پولیس کی بی جے پی کے ساتھ وفاداری اور متوسط طبقے اور تاجروں کی حمایت نے آخری بار بی جے پی کی جیت کو یقینی بنایا تھا۔ پھر بھی ہر پچھلے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی سیٹیں کم ہوئی ہیں اور اس نے 2017 میں صرف 99 سیٹیں ہی جیتی تھیں۔ اس کے بعد سے اس نے کانگریس کے 17 ایم ایل ایز کو توڑ لیا اور اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد 111 تک پہنچ گئی ہے جبکہ کانگریس کی طاقت گھٹ کر 60 ہو گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پارٹی تبدیل کرنا بھی ان کے حق میں جا رہا ہے کیونکہ بی جے پی مخالف رائے دہندگان یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب اپوزیشن کے ایم ایل اے الیکشن کے بعد یہاں سے وہاں جاتے ہیں تو اپوزیشن کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ!
سال 2017 میں راہل گاندھی نے گجرات میں کافی مہم چلائی تھی۔ اس بار وہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی وجہ سے یہاں انتخابی مہم میں حصہ لیں گے یا نہیں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے۔ راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت اور ان کے قابل اعتماد معاون رگھو شرما کانگریس کی مہم کی نگرانی کے لیے یہاں ہیں۔ ایک عام تاثر ہے کہ کانگریس اس بار زمین پر نظر نہیں آ رہی ہے اور وہ اتنی جارحانہ نہیں ہے جتنی کہ پچھلے انتخابات کے دوران تھی۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پارٹی کو سونیا گاندھی کے آنجہانی سیاسی مشیر احمد پٹیل کی عدم موجودگی کا بھی سامنا ہے لیکن ایم ایل اے اور راشٹریہ دلت ادھیکار منچ کے کنوینر جگنیش میوانی نے کہا کہ ’’پارٹی بڑی ریلیاں نہیں کر رہی ہے، اس لئے میڈیا کے مطابق نظر نہیں آ رہی ہے لیکن جس طرح سے ہم سڑکوں پر میٹنگیں کر رہے ہیں اور دیہی علاقوں تک پہنچ رہے ہیں، اس سے بہت فائدہ ہوا ہے، اسے تو خود وزیراعظم نے بھی قبول کیا ہے۔ اس بار ہمارے پاس بوتھ لیول کے کارکن ہیں جو بہتر منظم انداز میں کام کر رہے ہیں۔ 2017 میں ہم اس میں کمزور تھے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بے روزگاری، حکومت میں کنٹریکٹ پر تقرریاں اور مہنگائی بی جے پی کے لیے منفی انتخابی نتائج لائے گی۔ میوانی نے تسلیم کیا کہ عام آدمی پارٹی ریاست میں نظر آ رہی ہے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اس کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نظر آنا آسان ہے لیکن پانچ چھ ماہ میں 18000 گاؤں تک پہنچنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
وزیر اعظم جس طرح سے انتخابی مہم میں مصروف ہیں، اس سے صاف ہے کہ بی جے پی کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی۔ مودی نے اسے ذاتی لڑائی بنا دیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے تو پارٹی کی انتخابی مہم کی نگرانی کے لیے گاندھی نگر میں کیمپ تک بنا لیا ہے۔ ایک گجراتی اخبار نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ایسے ’بیوڑوں‘ کی فہرست بنانے کی ہدایات دی گئی ہے جو بی جے پی کے حامی نہیں ہیں۔
گجرات ملک کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک ہے اور بی جے پی یہاں 27 سال سے اقتدار میں ہے لیکن ریاست میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ لوگ شراب کی وجہ سے موت کے واقعات اور منشیات کی بڑی کھیپ کا پکڑا جانا، دلتوں کے ساتھ ظلم، دھولیرا کو شنگھائی سے بڑا تجارتی مرکز بنانے کے منصوبے وغیرہ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ احمد آباد، راجکوٹ، سورت اور وڈودرا جیسے بڑے شہروں سے دور علاقوں میں سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی خراب حالت بھی انتخابی مسئلہ بن گئی ہے۔ ویسے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان مسائل پر عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔
بی جے پی دیگر ریاستوں کی طرح اپوزیشن اور اس کی پارٹی کے باغیوں کو فرضی اور پرانے مقدمات میں پھنسانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ اس نے عدالت میں درخواست دی ہے کہ جگنیش میوانی کو 2016 میں سڑک بلاک کرنے پر جیل بھیج دیا جائے۔ ایسا ہی معاملہ شمالی گجرات میں دودھ کوآپریٹیو ڈیری کے سابق چیئرمین وپل چودھری کا بھی ہے۔ انہوں نے ایک غیر سیاسی تنظیم اربودا سینا کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ بی جے پی لیڈروں کو خدشہ تھا کہ اس کا استعمال ان کی پارٹی کے خلاف انتخابات میں کیا جائے گا۔ وپل کو گزشتہ ستمبر میں 2005 سے 2016 کے درمیان 750 کروڑ روپے کے غبن کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی بیوی گیتا بین اور ان کا بیٹا پون بیرون ملک میں ہیں لیکن ان کے نام بھی ایف آئی آر میں شامل ہیں۔ ویسے چودھری جس برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اس کی شمالی گجرات میں 12 نشستوں پر اچھی خاصی تعداد ہے۔ اس لیے بی جے پی کا یہ داؤ ان کے لیے الٹا پڑ سکتا ہے۔
دوسری طرف جس طرح سے بی جے پی اپنے پرانے اور وفادار کارکنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کانگریس سے آئے ہوئے لوگوں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہے، وہ بھی پارٹی کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ پارٹی حتمی میدانی صورتحال میں باغیوں سے کیسے نمٹتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔