عظیم مجاہد آزادی مولانا عبدالحفیظ محمد برکت اللہ بھوپالی... برسی کے موقع پر خصوصی پیشکش
محمد برکت اللہ بھوپالی کی پیدائش 7 ؍جولائی 1854ء کو مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں ہوئی۔
عظیم مجاہد آزادی، ممتاز صحافی اور ہندوستان کی پہلی جلاوطن حکومت کے وزیراعظم پروفیسر مولانا محمد برکت اللہ بھوپالی ہندوستان کے ان جانبازوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی برطانوی نو آبادیاتی نظام کے شکنجے سے نجات کے لیے وقف کر دی تھی۔ وہ برٹش انڈیا کے خلاف جاپان، امریکہ، ترکی، افغانستان اور جرمنی میں مقیم ہندوستانیوں کو اپنی پرجوش تقاریر اور اخبارات میں انقلابی تحریروں کے ذریعے متحرک کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ جن کی بے لوث سرگرمیوں کا ثمرہ نیتا سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کے جانبازوں کی شکل میں منظر عام پر آیا۔
یہ بھی پڑھیں : آرمی چیف کی تقرری کو ایشو بنانے کے خلاف عمران کو وارننگ
محمد برکت اللہ بھوپالی کی پیدائش 7 ؍جولائی 1854ء کو مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں ہوئی۔ انہیں بچپن سے ہی علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، ان کی ابتدائی تعلیم بھوپال میں ہوئی اس کے بعد انہوں نے اعلی تعلیم جبل پور اور ممبئی سے حاصل کی۔ بمبئی میں چار سال گزارنے کے بعد 1890ء میں لندن پہنچ گئے۔ جہاں 1897ء لندن میں مسلم پیٹرارٹک لیگ کے جلسے میں شرکت کی۔ ان کی انقلابی سرگرمیوں سے نالاں ہوکر برطانوی حکومت ملک بدر کرنا چاہتی تھی لیکن اس سے قبل ہی مولانا امریکہ پہنچ گئے، 1905ء وہاں سے نکل کر استنبول پہنچے، جہاں ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد جاپان پہنچ گئے اور ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو پڑھانے لگے۔ وہیں سے ایک اخبار ’اسلامک فٹرنیٹی ‘بھی نکالا۔ جاپانی حکومت نے برطانوی حکام کے دباؤ میں آکر اخبار پر پا بندی عائد کر دی اور انہیں ملازمت سے بھی دستبردار ہونا پڑا، لہٰذا 1912ء کے اوائل میں برکت اللہ پیرس پہنچ گئے جہاں سے انہوں نے ’الانقلاب ‘اخبار جاری کیا۔
وہ غدر پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ 13 مارچ 1913 ء کو غدر پارٹی کو منظم کرنے اور ہدایت دینے کے لیے 120 ہندوستانیوں کی ایک کانفرنس طلب کی گئی۔ سوہن سنگھ، لال ہردیال اور مولانا جیسے لوگ نمایاں طور پر اس میں شریک ہوئے۔ اس کا بنیادی مقصد مسلح جدوجہد کے ذریعے برطانوی اقتدار کا تختہ پلٹ کر ہندوستان میں جمہوری اور سیکولر جمہوریہ کا قیام تھا۔ غدر پارٹی کے ان مقاصد کو طے کرنے میں مولانا نے اہم کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے برکت اللہ اور دیگر ساتھیوں کو امریکہ چھوڑنا پڑا۔ چنانچہ 1914ء میں مولانا جرمنی پہنچے اور ہندوستانی انقلابیوں کی برلن کمیٹی کے رکن بن گئے۔
1915ء میں حکومت جرمنی کی ایما پر انڈو جرمن وفد کے ہمراہ استنبول پہنچے جہاں انہوں نے انور پاشا سے ملاقات کی۔ 12؍اکتوبر 1915ء کو کابل پہنچے اور مولانا محمود حسن کی ایما پر افغانستان میں ایک قائم ہونے والی عارضی آزاد ہند حکومت میں شامل ہوگئے۔ جس کے صدر راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی اور وزیر داخلہ مولانا عبیداللہ سندھی مقرر کیے گئے۔ جس کا مقصد شمال سے انگریزی حکومت پر حملہ کرکے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنا تھا، مگر عالمی جنگ کا آغاز ہونے سے انجام تک نہ پہنچ سکا۔
روسی انقلاب کے بعد افغانستان کے شاہ امیر امان اللہ خاں نے انہیں سفیر کے طور پر ماسکو بھیجا، جہاں انہوں نے راجہ مہیندر پرتاپ کے ساتھ لینن سے ملاقات کی۔ روس کے بعد وہ جرمنی پہنچے اور نیا اسلام جریدہ کی اشاعت شروع کر دی۔ چمپا کرماں پلئی کی تشکیل کردہ انڈین نیشنل پارٹی کے فعال رکن بن گئے اور عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپین ممالک کا دورہ شروع کر دیا۔1921ء میں دوبارہ روس پہنچے اور لینن سے ملاقات کی۔ 1922ء میں جرمنی واپس پہنچے اور انہماک سے ساتھ اپنے مشن میں لگ گئے۔ 1925ء میں برلن کی انڈین انڈیپنڈس پارٹی کے صدر چنے گئے۔ فروری 1928ء میں بروسیلز میں سامراج مخالف عالمی کانفرنس میں ہندوستانی وفد کے ایک رکن کی حیثیت سے حصہ لیا، جو پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں کیا گیا تھا۔
پروفیسر مولانا محمد برکت اللہ بھوپالی کی جدوجہد بھری زندگی نے ان کی صحت پر کافی گہرا اثر ڈالا۔ وہ ذیابیطس اور دیگر امراض کے شکار ہوگئے۔ آخرکار 20؍ستمبر 1927ء کو امریکہ کے سان فرانسسکو میں آزادی کا عظیم مجاہد بھاگ دوڑ کی تھکا وٹ سے فارغ ہوکر ابدی نیند سوگیا۔ انہیں امریکہ کے مرواس بلی قبرستان میں سپرد لحد کر دیا گیا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جو وطن عزیز کی آزادی کی خاطر اپنا گھر بار، وطن کو چھوڑ کر پوری دنیا کی خاک چھانتا پھرتا رہا۔ اسی کے آبائی وطن بھوپال میں فراموش کر دیا گیا۔ بھوپال میں برکت اللہ یونیورسٹی ضرور ہے، لیکن نئی نسل ان کے کارناموں سے تو کجا ان کے نام تک سے واقف نہیں ہے۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی نے مرنے سے قبل اپنے ساتھیوں سے کہا تھا، ’’میں پوری زندگی خلوص کے ساتھ اپنے مادر وطن کی آزادی کی خاطر جنگ لڑتا رہا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میری زندگی میرے پیارے ملک کے لیے کام آئی۔ مگر افسوس اس بات ہے کہ میں زندگی میں کامیاب نہیں ہوسکا، لیکن وہیں مجھے اطمینان ہے کہ آج لاکھوں لوگ میرے ملک کو آزادی دلانے کے لیے آگے آئے ہیں، جو سچے ہیں، بہادر ہیں اور جان پر کھیلنے والے ہیں اور اطمینان کے ساتھ میں اپنے ملک کی تقدیر ان کے حوالے کر کے جا رہا ہوں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔